اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بنچ میں زیر سماعت مدثر نارو سمیت دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق کیسز میں دلائل جاری رہے۔ عدالت نے فریقین سے تحریری دلائل طلب کرلیے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کابینہ نے 30 مئی 2022 ء کو عدالتی حکم پر لاپتہ افراد سے متعلق کمیٹی تشکیل دی، کمیٹی کے اب تک آٹھ اجلاس ہو چکے 60 فیصد کام ہو چکا ہے، کمیٹی لاپتہ افراد کی فیملیز سی ملی اس میں مختلف طبقہ فکر کے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ابھی ہوا کیا ہے؟۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ آپ کو پتہ ہے جو کام نہ کرنا ہو اس پر کمیٹی بنا دی جاتی ہے، آپ نے اپیل کیوں کی؟ لاپتہ افراد کدھر ہیں وہ بتائیں۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ سات ماہ پہلے کی سماعت پر بھی اٹارنی جنرل آفس سے کوئی نہیں آیا تھا، دوگل صاحب آپ کو کہہ رہے ہیں کمیٹی کمیٹی نا کھیلیں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ لاپتہ افراد کیسز سے متعلق ریاست کی مشنری ناکام رہی ہے، ہمیں یہ بتائیں لاپتہ افراد مار دیے ہیں یا ان لوگوں کو کس حال میں رکھا ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ تین سال ہو چکے کوئی تھوڑی سی پراگریس بتا دیں، کچھ بھی نہیں ہوا۔ ہم یہ نہیں کہیں گے ایف آئی آر کاٹیں ہمیں کمیٹیوں کا نہ بتائیں، ہمیں بتائیں یہ لاپتہ افراد کدھر ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کم از کم ہمیں یہ تو بتائیں لاپتہ افراد ہیں کہاں پر؟، فائل دیکھ کر بتائیں کوئی تھوڑی سی پراگریس ہے؟۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل پر برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ آپ بیان حلفی دے دیں فلاں تاریخ کو بندے بازیاب ہو جائیں گے، کمیٹی کمیٹی کیا کرتے ہیں، کمیٹی کیا کر لے گی؟، کمیٹی پارلیمنٹ کے کمرے میں بیٹھ کر چائے پی کر کہہ دے گی بہت برا ہوا، ہمیں بتائیں لاپتا بندے زندہ ہیں، مر گئے یا ہوا میں تحلیل ہو گئے؟، کس بنیاد پر ہم سے چاہتے ہیں سنگل بنچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیں؟، آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل پیش ہوں تو ان کے دلائل سن لیں گے۔ عدالت نے 8 مارچ تک سماعت ملتوی کردی۔