اسلام آباد(نامہ نگار)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم کے چیئرمین نے سوال کیا ہے کہ پی ایس او پی این ایس سی کے جہازوں کے ذریعے پیٹرولیم مصنوعات درآمد کیوں نہیں کرتا؟ دونوں کو ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے جبکہ سوئی سدرن گیس کمپنی(ایس ایس جی سی) میں ایس ایس جی سی حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ صنعتوں کی جانب سے بڑے کمپریسر لگائے جانے کی وجہ سے سندھ میں گھریلو صارفین کو گیس پریشر میں کمی کا سامنا ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر سیف اللہ ابڑو کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا،اجلاس کے دوران چیئرمین نے سوال کیا ہے کہ پی ایس او پی این ایس سی کے جہازوں کے ذریعے پیٹرولیم مصنوعات درآمد کیوں نہیں کرتا؟ دونوں کو ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔پی ایس او حکام نے جواب دیا کہ پی این ایس سی سے پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد کا معاہدہ 2012 میں ہوا تھا، 2015 میں پیٹرولیم بحران میں تیل منگوانے کے لیے پی این ایس سی کے پاس جہاز نہیں تھا، اس بحران کے بعد پی این ایس سی کے علاوہ دیگر شپنگ کمپنیوں کو ہائر کرنے کا فیصلہ ہوا، کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے بھی اس کی منظوری دی۔پی این ایس سی حکام نے بتایا کہ جہاز کی دستیابی کا مسئلہ اس لیے بنا کہ پی ایس او نے جہاز کا کرایہ بر وقت بڑھایا نہیں تھا، پی این ایس سی ابھی بھی تھرڈ پارٹی کمپنیوں کا مال پی ایس اوکے لیے لا رہی ہے، ملک کی ریفائنریز اور کچھ آئل کمپنیوں کا مال پی این ایس سی لا رہی ہے، بحری جہاز بندر گاہ پر 8، 10 دن زیادہ کھڑا رہے تو 80 ہزار ڈالرز یومیہ جرمانہ دینا پڑتا ہے، زرِ مبادلہ کے ذخائر بچانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومتی کمپنیاں مل کر کام کریں۔چیئرمین اوگرا نے کہا کہ پی ایس او اور پی این ایس سی کو مل کر کام کرنا چاہیے اسی میں ملک کی بہتری ہے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ زرِ مبادلہ ذخائر کی صورتِ حال میں دونوں حکومتی کمپنیوں کو مل کر کام کرنا چاہیے۔ ئی سدرن حکام نے سندھ میں گیس کی کمی کی صورتحال پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ کمپنی کو گیس میں کمی کا سامنا ہوا تو کارخانوں کو بھی گیس نہیں مل رہی تھی جس کے باعث انہوں نے کمپریسر استعمال کیے۔ گزشتہ سال جنوری میں کراچی میں 278 کیپٹو پاور نے بڑے کمپریسرز لگائے جس کے باعث تقریبا 304 ایم ایم سی ایف ڈی گیس پریشر کم ہوا۔
قائمہ کمیٹی کا سوال