صدف چاک …فدا شیرازی
fidasherazi@gmail.com
کہتے ہیں ایران کا بادشاہ دارا ایک دفعہ شکار کھیلتے ہوئے اپنے لشکر سے بچھڑ گیا اس اثنائ میں اْس نے دیکھا کہ ایک آدمی دوڑتا ہوا اس کی طرف آرہا ہے۔ دارا سمجھا کہ یہ کوئی دشمن ہے اس نے فوراً تیر کمان میں جوڑ کر اس آدمی کا نشانہ باندھ لیا۔ وہ شخص خوفزدہ ہو کر چلایا کہ جہاں پناہ! میں آپ کا دشمن نہیں ہوں بلکہ آپ کا چرواہا ہوں اور یہاں آپ کے گھوڑے چرا رہا ہوں بادشاہ نے کمان ہاتھ سے رکھ دی اور ہنس کر کہنے لگا کہ اے بے وقوف! اگر آج فرشتہ غیب تیری مدد نہ کرتا تو تیری موت میں کوئی کسر باقی نہ رہ گئی تھی۔ چرواہے نے ہاتھ جوڑ کر کہا بادشاہ سلامت! اگر جان کی امان پائوں تو کچھ عرض کروں۔دارا نے کہا کہو، کیا کہتے ہو؟چرواہے نے کہا جناب آپ ساری رعیت کے رکھوالے ہیں یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ آپ دوست اور دشمن میں تمیز نہ کرسکے حالانکہ آپ نے مجھے بارہا دیکھا ہوا ہے اور مجھ سے گھوڑوں اور چراگاہ کے حالات بھی دریافت کیے ہوئے ہیں ۔اس وقت حضور کی پاپوشی کیلئے آپ کی طرف بڑھا تو آپ نے مجھے دشمن سمجھ لیا حالانکہ مجھ جیسا غریب چرواہا اپنے گلے کے بے شمار گھوڑوں میں سے ایک ایک کو پہچانتا ہے۔ آپ جس گھوڑے کے پیش کرنیکا حکم دیں اسے پل بھر میں لاکر حاضر کر دوں۔ عالم پناہ! جہاں بانی کی شرط تو یہ ہے کہ آپ اپنے ہر ماتحت کو پہچانیں کہ وہ کون ہے اور کیسا ہے ؟ میں گھوڑوں کا رکھوالا ہوں اور آپ رعیت کے رکھوالے ہیں جس طرح میں فہم و فراست سیاپنے ریوڑ کو قائم رکھتا ہوں اس طرح آپ بھی اپنے گلے کو قائم رکھیئے۔بقول مشکور مرادآبادی
ہم تو کیا اہل نظر کو بھی ہوئی ہے اکثر
دشمن و دوست کی پہچان بڑی مشکل سے
پاکستان کو بنے ہوئے 75 سال بیت گئے لیکن ابھی تک ہمیں دوستوں اور دشمنوں کی پہچان نہ کر سکے ۔ ان 75 سال کے نشیب و فراز میں پاکستانی عوام اور سیکورٹی اداروں نے قربانیاں ہی دی ہیں اور آج تک دیتے آرہے ہیں اور دشمن اپنی چالبازیوں سے اْنہیں ہمیشہ ہی نقصان پہچانے کے درپہ رہتا ہیہم نے کبھی بھی اپنے درمیان اْن گھس بیٹھیوں کو نہیں پہچانا جو چند ڈالروں کی خاطر ایک کنجری کی طرح ملک دشمنوں کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ جبکہ دین کے نام پر دہشتگردی کا اڑدھا پہلے ہی ہمارے کتنے اہم ترین لوگوں کو نگل چکا ہے دین کیساتھ تو مذاق بہت پہلے سے شروع کیا گیا تھا جب کربلا میں امام حسین علیہ السلام کو شہید کرنیوالوں اس جلدی میں تھے کہ کہیں اْن کی نمازیں ہی قضا نہ ہو جائیں۔علامہ اقبالؒ نے اس سانحہ کی کیا خوبصورت عکاسی کرتے ہوئے کہا تھا کہ
کیا تماشہ ہوا اسلام کی تقدیر کے ساتھ
قتل شبیر ہوئے نعرہِ تکبیر کے ساتھ
ہمارے اندر چھپے ملک دشمنوں کے کارندوں نے کبھی سکولوں کو نشانہ بنایاتوکبھی مسجدوں پر حملے کییاورکبھی ہمارے سیکورٹی اداروں کونقصان پہنچایا پشاور میں مسجد پر خود کش حملہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہیجو ایک طرف تو سیکیورٹی ادارے پر حملہ ہے جب دوسری طرف اس میں اللہ کے حضور سربسجود ہونیوالوں کو نشانہ بناکر شہید کیا گیا ہے۔خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور کے ریڈ زون میں واقع پولیس لائنز کی مسجد میں خودکش بم دھماکہ کے نتیجہ میں پولیس اہلکاروں سمیت93 افراد شہید اور 221سے زائد افراد زخمی ہیں۔ زخمیوں میں متعدد کی حالت نازک بھی بتائی جارہی ہے۔ دھماکہ کے نتیجہ میں مسجد کی چھت منہدم ہوئی جس کے نیچے میں درجنوں افراد ملبے تلے دب گئے۔ واقعہ کے بعد پولیس اور سکیورٹی فورسز نے پولیس لائن جانے والے تمام راستے سیل کئے رکھے جبکہ ریسکیو1122 اور دیگر امدادی اداروں کی ٹیموں نے نعشوں اور زخمیوں کو ہسپتال منتقل کردیا۔ ملک سعد شہید پولیس لائنز کی جامع مسجد میں پیر کے روز پولیس افسران اور اہلکاروں کے ساتھ پولیس لائنز آنے والے کئی سو افراد نماز ظہر ادا کرنے آئے تھے۔ امام مسجد صاحبزادہ نورالامین نے جیسے ہی اللہ اکبر کہا اس کے ساتھ ہی ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ دھماکہ مسجد کی اگلی صف میں ہوا کہتے ہیں دھماکہ اتنا شدید تھا کہ اس کی آواز دور دور تک سنی گئی ۔
سانحہ پشاورپر وزیراعظم میاں شہباز شریف نے دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے آرمی چیف کے ہمراہ پولیس لائنز پہنچ کر قوم کو حکومت اور فوج کے ایک پیج پر ہونے کا عندیہ دیا۔وزیراعظم کا پشاور میں آرمی چیف نے استقبال کیا جبکہ وزیراعظم نے پولیس لائنز دھماکہ پر ہنگامی اجلاس بلا کر تمام متعلقہ اداروں کے حکام کو بھی طلب کیا۔ اجلاس کے دوران وزیراعظم نے صوبوں میں انسداد دہشتگردی کی صلاحیت بڑھانے میں تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔ اس دوران وزیراعظم نے وفاقی وزیر داخلہ کو صوبوں میں بالخصوص خیبرپختونخوا کاونٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی صلاحیت بڑھانے میں مدد فراہم کرنے کی ہدایت بھی جاری کی۔ اس موقع پر خواجہ آصف، رانا ثنائ اللہ اور مریم اورنگزیب بھی وزیراعظم کے ہمراہ تھے۔ اجلاس میں دہشت گردی کے محرکات پر غور کیا گیا اور ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ بھی پیش کی گئی۔وزیراعظم کو کورکمانڈر پشاور نے دہشت گردی کے عوامل اور محرکات پربریفنگ دی جب کہ آئی جی پولیس خیبرپختونخوا معظم جاہ انصاری نے پولیس لائنز خودکش حملے پر ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ پیش کی۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کی جانب سینیشنل ایکشن پلان پر پوری قوت اور جامعیت سیعمل درا?مد یقینی بنانے کا فیصلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔نیشنل ایکشن پلان دراصل دو اہم نکات پر مشتمل ہے جس کا ایک جز دہشتگردی کا خاتمہ جبکہ دوسراجز انتہا پسندی کا خاتمہ ہے انتہا پسندی ایک ذہنی اور فکری عمل ہے جس کے زیرِ اثرلوگوں کی نفسیات بنتی ہیاور دہشت گردی اس کا عملی اظہار ہے۔ جب انتہا پسند ذہن ایک خاص نفسیاتی کیفیت میں چلا جاتا ہیتو انسانی جان و مال کو ہدف بنانا شروع کر دیتا ہیاور دہشت گردی جنم لیتی ہے۔خداکرے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت وزیراعظم شہباز شریف انتہاپسندی اور دہشتگردی کو جڑ سے اْکھاڑ پھینکیں۔ایک بات تو بالکل حقائق پر مبنی ہے کہ میاں محمد شہباز شریف جس کام کے پیچھے پڑ جائیں اْس کی تکمیل کرکے چھوڑتے ہیں۔عوام کی طرف سے بھرپور اعتماد وزیراعظم کے مشن کی تکمیل میں سنگِ میل ثابت ہوگا ۔بقول نریش کمار شاد
اتنا بھی ناامید دل کم نظر نہ ہو
ممکن نہیں کہ شام الم کی سحر نہ ہو