شیر جنگل کا بادشاہ تھا لیکن بلی نے اسے درخت پر چڑھنا نہیں سکھایا تھا۔سو درخت کا پھل بلی کے قبضے میں تھا۔ شیر بیج کی بوائی کے لیے جانوروں اور پرندوں کو دعوت دیتا ، نگرانی کرتا لیکن بندر بانٹ میں ہر بار مار کھا جاتا۔یہ حقیقت ہے کہ بلی کالی ہو یا سفید ، خاکی یا مٹیالی ! کہلاتی شیر کی خالہ ہی ہے۔شیر کی بادشاہت پہ بلی کے پنجوں کی مہر stamp ایسے لگتی ہے گویا مہر stamp نہ ہوئی
''مہر معجّل'' یا ''مہر مؤجل'' ہو گیا۔ چاہے تو ادا کریں چاہے معاف کروا لیجیے۔معیاد کا سوال ہے نہ بحث و مباحثہ اور دلیل کی کوئی گنجائش۔ یہ مہر stamp کنویں پہ لگے سٹیکرز کی طرح تھی۔چاہے خالی کنویں کے پانی کو میٹھا قرار دے دے یا کڑوا ، یا پھر زہریلا۔ کالی ،نیلی ، سرخ سیاہی پہ کسی کی نظر پڑنے سے محفوظ رکھنا سیاہی کے لیے ضروری قرار پایا۔ یہ پروپیگنڈہ بھی زوروں پہ تھا کہ قصور سیاہی کا ہی ہے۔ سیاہی نہ ہوئی کالک ہو گئی جو تقدیر کے چھہتر صفحات کو بے رنگ کر چکی تھی۔ سو کتنے ہی برسوں سے ننھا معصوم خرگوش گلی کی نکڑ پہ کب سے بیٹھا آنے جانے والوں کو دیکھ رہا تھا ،کبھی اسے اونگھ آجاتی اور کبھی اچانک ہی وہ انگڑائی لینے لگتا۔کالی بلی سات گھر پھر آنے کے بعد بھی خاموش تھی۔ ننھے خرگوش نے سوچا ! ہو نا ہو۔۔۔ ضرور کالی بلی کو کوئی پریشانی لاحق ہے۔ یہ سوچ ابھرتے ہی وہ کالی بلی کے پاس پہنچا اور اس سے نہایت عامیانہ انداز میں پوچھا۔" کی پریشانی اے سونیہو "۔ کالی بلی نے ناگوار انداز میں خرگوش کو دیکھا اور بے زاری سے زمین کریدنے لگی۔ بلی کو علم تھا کہ زمین کی تہہ میں بھی یقینا " کوئی تہہ ہی ہے۔ جس طرح دل کے پیچ و خم نہیں کھلتے ایسے ہی زمین کی یہ پرسراریت بھی قائم رہے گی۔ صدیوں سے ہر پل دفن ہونے والوں کی باقیات میں بھی کسی ہنگامہ تو کیا ، سرگوشی تک کے آثار نہ کھلتے تھے۔ معصوم خرگوش بڑے غور سے کالی بلی کی یہ خاموشی دیکھ رہا تھا۔ اسے حیرت تھی کہ کالی بلی تو کبھی راستہ کاٹے بنا نہیں رہتی۔ آج یہ اتنی خاموشی ؟ چہ معنی !!! اس نے پھر سے کالی بلی سے پوچھا کہ وہ اس قدر خاموش اور سست کیوں ہے ؟ کالی بلی مسکرائی لیکن کوئی جواب نہ دیا۔ خرگوش کو سب مکوڑوں نے بتایا کہ کالی بلی کوئی ایسا جلسہ کرنا چاہتی ہے جس میں بڑے سے بڑا جھوٹ بھی سچ لگے۔ بلی سات گھر پھر سکتی ہے سو اس کے لیے سات جھوٹ بولنا کیا مشکل کام تھا۔بلی نے بظاہر سادہ اور بے ضرر نظروں سے خرگوش کو دیکھا ۔لیکن خرگوش کے اندر تک یخ بستگی اتر آئی۔ خرگوش بے چارا ہنس تک نہ سکا۔اس دیدہ دلیری سے جھوٹ پر اس کی آنکھیں بھر آئیں۔اب تو اسے بھی جھوٹ بولنے کی خوب پریکٹس ہو چکی تھی۔وہ اپنے بچوں کو روز یہ کہہ کر نکلتا کہ وہ کھانا لے کر آئے گا اور شام کو اسے خالی ہاتھ دیکھ کر بھی بچے اسے جھوٹا نہ سمجھتے۔پتے کھا کر پانی پی لیتے اور اس کے جھوٹ کو ضائع کر دیتے۔بالکل ایسے ہی جیسے کسی قیدی اور گالیاں دینے والے بد زبان کو وارننگ دے کر چھوڑ دیا جائے۔لیکن بھوکے کو ایک دن کی روٹی بھی یہ سوچ کر نہ دی جائے کہ وہ کل پھر مانگ لے گا۔۔ عجیب سراسیمگی تھی جو پورے معاشرے کو ٹیسٹ کیس بنا کر پھٹے گیند کی طرح کھیل رہی تھی ۔ نہ گیند پہ کک لگ سکتی تھی اور نہ ہی اسے اچھالا جا سکتا تھا۔بس گول گول گھما کر گول پہ گول کیے جا رہے تھے۔ نہ ریفری کا علم تھا نہ ہی گول کیپر کا کچھ پتہ تھا۔ خرگوش سرنگیں کھودنے میں مگن تھے۔جانور جنگل کی کانٹ چھانٹ میں اپنے مقام پہ ساکت تھے۔ بلی شیر پر غراتی اور درخت پر چڑھ جاتی۔باقی سب کیڑے مکوڑے رینگتے جا رہے تھے۔جس چیونٹی کے پر نکل آتے وہ اڑ جاتی۔اور چیونٹیوں کی قطار میں دراڑ تک نہ آتی۔ موجود اور غیر موجود کا سوال ہی لا محدود امکانات اور اثرات رکھتا ہے۔کچھ چیزوں کی موجودگی وقت کی سیاہی کھا جاتی ہے سو کھائی جا رہی تھی اسی لیے دیکھتے ہی دیکھتے مالٹا کلو میں بکنے لگا تھا اور ہم طلبہ کو ابن انشا کا سفر نامہ پڑھا رہے تھے کہ افغانستان ترقی سے کتنا دور ہے۔ہم ترقی یافتہ ہیں سو آنے والے دنوں میں آئل شاید لٹر کے بجائے فی چمچ فروخت کیا جائے گا۔ محو حیرت پھر سے حیرت میں گم ہیں۔دنیا وہی ہے لیکن کہیں شگاف پڑ چکا ہے۔ سو جیل اور چور کا تماشا جاری ہے۔
ایک پرانا مدفن جس میں دفن ہیں لاکھوں امیدیں
چھلنی چھلنی سینہء آدم دیکھنے والے دیکھتا جا