اے غمِ زندگی کچھ تو دے مشورہ

تابندہ خالد 
آجکل بہت ساری ٹینشنیں ایسی ہیں جو کہ ہماری ایجاد کردہ ہیں اور ڈیپریشن۔۔۔ وہ تو پالتو ہے کیونکہ ہم نے خود اسے پالا ہے۔ خدارا مطمئن رہنا سیکھیں۔ خالق کائنات نے جو چیز آپ کے مقدر میں لکھ دی ہے اسے جن و انس مل کر بھی چھین نہیں سکتے۔بس ایک بات ذہن نشین کر لیجئے کہ کبھی زندگی تھکا دے تو کسی کو کان و کان خبر نہ ہونے دیں۔ اپنے رب کے حضور سب بیان کیا جائے، چیکے چپکے آہستہ آہستہ۔ ٹوٹے ہوئے دل اور آنسو کی قدر صرف اس کے ہاں ہے۔ لوگوں سے ناکامیوں کا تذکرہ آپ کو مزید ڈاؤن کر دیتا ہے۔ اسی حوالے سے چارلی چیپلن کا پْرمغز قول ہے " اگر خوش ہو تو آہستہ سے ہنسا کروتاکہ غم نہ لگ جائے اور اگر غمگین ہو تو آہستہ رویا کرو تاکہ آنیوالی خوشی کہیں ناامیدی میں نہ بدل جائے"۔قارئین یہی بات ایک ٹول ہے کہ جس نے اسے اپنایا اسے زندگی گزارنے کا گرْ آ گیا۔ لوگوں کے طنزیہ جملوں سے بچنے کے لیے  اتنے قابل ضرور بنو کہ مذاق اڑانے والوں کی بولتی ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیسے ہوگا۔۔۔؟ اس کے لیے روڈ میپ بنائیے کہ کس وقت کس چیز کو اپنایا جائے۔ زیرو لیول سے ترقی کا سفر کیسے شروع ہوگا۔ جس ترقی و خوشخالی کا دل میں ارادہ کرتے ہیں۔۔۔اسے کر گزریے۔۔۔ ترقی کا صیغہ راز محنت مزدوری ہے۔ جس کی کامیابی کو لوگ روک نہیں پاتے اس کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کر دیتے ہیں۔لہذا کوشش کو جاری رکھیے۔ زندگی کے" ٹرننگ پوائنٹ" پر اس بات پر پریشان مت ہوں کہ راستہ کہاں لیکر جائے گا بلکہ اپنی توجہ پہلے قدم پر رکھیں۔ جب پہلا قدم اٹھا لیا تو ہر شے کو اپنے قدرتی انداز سے کام کرنے دیں۔ عجلت پسندی سے بسا اوقات کام کھٹائی میں پڑ جاتے ہیں، بس بہترین و پرفیکٹ وقت کا انتظار کیجئے۔ صحیح وقت کبھی نہیں آتا ، خود کو صحیح بنانا پڑتا ہے۔ سیانے کہتے ہیں اچھا ہو یا برا۔۔۔وقت گزر ہی جاتا ہے بس یاد رہتا ہے تو اتنا کہ کس نے مشکل کو مشکل ترین بنا دیا اور کس نے آسان۔ زندگی اگر آسان ہوتی تو ہمیں کبھی بھی پتہ نا چلتا کہ صبر کیا ہے، دعا کیا ہے،امید کی کرن کیسے جاگتی ہے، حوصلوں کو کیسے بلند کیا جاتا ہے، لگن کیا چیز ہے، توکل کے کتنے مدارج ہیں۔ کامیابی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو کیسے عبور کیا جاتا ہے، دوستی ، محبت، اور سارے رشتے کیا معنی رکھتے ہیں۔ کچھ باتوں کو ہضم کر لینے کے کیا فوائد ہیں وغیرہ۔
زندگی نہ کبھی آسان تھی۔۔۔ نہ ہے۔۔۔ اور نہ ہوگی۔ اس لیے قدم قدم پر اپنے آپ کو چیلنج کرنا سیکھیے۔ اپنے آپ کو کوئی ٹاسک دینا ہی بہتر اور کامیاب زندگی کی جانب لے جاتا ہے کوئی تبدیلی بھی آسان نہیں ہوتی۔ اس کو قبول کرنے کے لیے ذہن سازی کی ضرورت ہے۔ کبھی آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ گھر کی چیزوں مثلاً فریج، ٹی وی کو اِدھر سے اْدھر رکھیں تو عجیب ہی محسوس ہوتا ہے اسی طرح زندگی کے دیگر معاملات کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایک انسان ہیں کوئی ربوٹ نہیں، آپ پرفیکٹ نہیں۔ ہمیشہ حقیقت پسندانہ سوچ رکھیں۔ انسان معاشرتی حیوان ہے سب کچھ تنہا نہیں کر سکتا۔ بہتر یہی ہے کہ زندگی کو آسان بنایا جائے۔ روزمرہ کے معمولات میں ہزاروں چیزیں آپ کی توجہ چاہتی ہیں۔جیسے گھر، دفتر کے کام، رشتہ داروں سے ملنا جلنا، بچوں کے ہوم ورک میں ان کی مدد کرنا۔ ایسی سرگرمیوں میں ملوث رہنے کے لیے غذا پر دھیان دیجئے اور جنونی رویوں، لڑائی جھگڑوں کی سیاست پر مغز ماری کم کی جائے۔ زندگی میں مار کھانے سے بچنے کے لیے ایک نسخہ کیمیا اپنائیے کہ اپنا موازنہ دوسروں سے ہرگز نہ کریں۔ ایسا کریں گے تو سکون غارت ہو جائے گا۔ دوسروں کا خیال ان کی توقعات کے مطابق رکھیں۔ ہمیشہ ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے کمیونٹی میں حسن اخلاق سے پیش آئیں، اگر آپ کو آپ کے مطابق کوئی عزت دینے سے گریز کرے تو ایکشن کا ری ایکشن نہ دیں۔ معاشرتی حسن ادلے کا بدلہ نہیں ہوا کرتا۔ دل بڑا کیجئے۔ اگر کسی کا حال دریافت کرنے کے لیے کال نہیں کریں گے تو کسی کو فرق نہیں پڑے گا۔ ماضی میں کیا ہوا، اس پر مٹی ڈالیں اور آگے بڑھیے۔ 
ہمارے معاشرے میں اس وقت بڑا مسئلہ بے صبری ہے۔ آج کے نوجوان محنت کے بغیر ڈائریکٹ  نتائج چاہتے ہیں۔سوچتے ذیادہ ہیں پریکٹیکلی سنجیدہ نہیں۔ ازحد ضروری ہے کہ فرسٹریشن کے احساس کو اپنے اوپر قابو نہ پانے دیں۔ بیصبری سے ذہنی تناؤ بعض اوقات چڑچڑاپن، بلڈ پریشر، دل پر بوجھ اور تعلقات خراب کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ کنٹرول سے باہر مشکلات پر صبر سے کام لینا سیکھیں۔ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ صبر کے لیے بھی فیلڈ کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں۔ یہ نہیں کہ فلاں کام استطاعت سے باہر ہو اور ناکامی کو صبر کا درجہ گرادنتے ہوئے وقت کا ضیاع کریں۔ جب بھی مایوسی کا احساس ہو تو اردگرد ان چیزوں پر نگاہ ڈالیں جو آپ کے کام آتی ہیں اور باعثِ مسرت ہیں۔

ای پیپر دی نیشن