پاکستان کا سیاسی اور مالیاتی نظام                                   

Feb 03, 2023

وزیر احمد جوگیزئی

سردار نامہ … وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com 
سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی

پاکستان اقتصادی لحاظ سے ہمیشہ کمزور رہا ہے ۔ شروع شروع میں جب حیدرآباد دکن اور پھر ریاست بہاولپور نے پاکستان کی معاونت کی۔ ان کی مدد کے بغیر پاکستان کا نظام نہیں چل سکتا ۔ان ریاستوں کی مدد سے سرکار کا کاروبار چلا اور اس طرح پاکستان کا سفر شروع ہوا ۔اور اس کے بعد ایک دور آیا جب سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک نے پاکستان کی مدد کرنا شروع کی اور ان کی مدد سے پاکستان چلتا رہا،امریکہ سے بھی پیسے لینے کا رواج ہوا، اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے تو پاکستان دہائیوں سے قرض لے ہی رہا ہے۔ ۔امریکہ سے چار سو اسی کے تحت گندم بھی لینا شروع کی گئی اور اس دور میں گندم امریکہ سے لے جاتی تھی اس کی پیمنٹ روپے میں ہوتی تھی اور یہ روپیہ امریکی ایمبیسی میں ہی رکھا جاتا تھا اور پاکستان کی مدد اسی پیسے سے کی جاتی تھی ۔اسی طرح سے پاکستان کا نظام حکومت چلایا جا رہا تھا اور آج بھی وہی سلسلہ جاری و ساری ہے بیرونی مدد کے بغیر ملک چلانا مشکل ہو رہا ہے آئی ایم ایف  لائف لائن بن کر رہ گیا ۔اس صورتحال سے نکلنے کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ حکومت کاروبار دوستی کرے دشمنی نہ کرے ۔اور کاروبار دوستی کا مطلب ہے کہ کاروباری طبقے کی حفاظت کی جائے ،  ان کو مکمل سیکیورٹی فراہم کی جائے تمام سہولیات فراہم کی جائیں سستی توانائی فراہم کی جائے اور ان کی ہر قسم کی مدد جو بھی ان کو درکار ہے حکومت ان کو فراہم کرے ۔ اور اسی کے ذریعہ ہم اپنے ملک کی دولت میں اضافہ کرسکتے ہیں ۔ٹیکس وصولی کے نظام کو آسان اور بہتر بنایا جائے اور کاروبار پر ٹیکسوں کی شرح میں کمی ہونی چاہیے ،اس کے بغیر ملک کے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ممکن نہیں ہے ۔جن ممالک نے بھی ترقی کی ہے ان سب کی حکومتیں بزنس فرینڈلی حکومتیں ہیں۔ لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے ہر حکومت میں بزنس مین کو چور ہی سمجھا اور اگر کسی ملک میں یہ صورتحال ہو تو اس ملک میں کاروبار نہیں چل سکتا ۔اور یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ملک میں صنعت و حرفت بہت ہی کمزور رہ گئی ہے، ہمیں صنعت خصوصا برآمدی شعبے پر بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔پاکستان کی برآمدات اس ملک کے رقبے کے لحاذ سے نہ ہونے کے برابر ہیں اور ہمیں اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اگر سنگاپور جیسا چھوٹا سا ملک جو کہ رقبے کے لحاذ سے اسلام آباد شہر کے برابر ہے وہ سالانہ بنیادوں پر 140ارب ڈالر کی برآمدات کر سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں ؟ ہمارے تمام ہمسایہ ممالک ہم سے آگے بڑھ چکے ہیں اور ہمارے لیے یقینا یہ صورتحال تشویش ناک ہے ۔ہمیں اقتصادی طور پر ٹریک پر واپس آنے کی ضرورت ہے ۔بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے اکابریں نے ہمیشہ نمائشی اقدامات کو ترجیح دی ہے جس کا نقصان قوم کو ہوا ہے ۔ ساتھ ساتھ ہم نے زراعت کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے۔ جس کا آج کل کے حالات سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ زراعت کی ترقی میں حکومت کی کیا کارکردگی ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ کارکردگی صفر ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا زرعی زمینوں پر تیز رفتاری سے ہاؤسنگ سوسائٹی بنائی جارہی ہیں جس رفتار سے زرعی رقبہ کم ہورہاہے جو کہ ہمارے ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہا ہے۔ اور اگر یہی روش جاری رہی تو کل کو ہمارے پاس کھانے کے لئے بھی کچھ نہیں ہوگا ۔فوڈسیکیورٹی لازمی ہے اور اس کے لیے درست فیصلہ کرنا لازمی ہے اس کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ورنہ بہت دیر ہو جائے گی ،اقتصادیات کو بہتر کیا جانا چاہئے.ذمیندار کی نہیں بلکہ کاشتکار کی مدد کی جائے اور اسی طرح ہم اس مخمصے سے نکل سکتے ہیں ۔معاشی حالات ہمارے شروع سے اسی طرح کے رہے ہیں لیکن اب جو بات زیادہ گھمبیر ہے اور زیادہ سوچنے کی بات ہے کہ ہم moral decedence کا بھی شکار اخلاقی زوال پرستی کا شکار ہو چکے ہیں اور زوال کی گہرائیوں میں گرتے چلے جارہے ہیں اخلاقی طور پر ہم معاشی طور سے  زیادہ گر چکے ہیں ہمیں اس صورتحال میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ ملک اور قوم کو اس گرداب سے نکالنا دانشوروں کا کام ہے ہم اسلام کے نام سے بنے تھے اور اسلام کا پیغام لے کر آگے چلنے کی ضرورت ہے۔ پھر یہ بھی سوچنے کی بات ہے کیونکہ اس ملک کا سارا نظام اسلامی ہو رضاکارانہ طریقے سے زکوۃ کٹوتی کی جائے تو وہ پورے ملک کے لیے بہتر ثابت ہو سکتا ہے اور ٹیکس  سے زیادہ رقم جمع ہو سکتی ہے اسلام میں ٹیکس کا نظام لاگو کیا جانا چاہئے ۔ہر شخص کی اپنی صوابدید ہے کہ ٹیکس اللہ اور اس کے رسول کے نام پر جمع کرے اگر اسلامی طرز پر زبردستی نہیں کی جاسکتی اس سے زبردستی کا عنصر نکالنا ہو گا اور صرف اللہ کی رضا کے لئے شہریوں صوابدید پر چھوڑا جائے ۔ ایسا کرنے سے قوم میں بہتری آئے گی ہماری اخلاقیات بھی بہتر ہو جائے گئیں۔ اور شاید ہم معاشی طور پر بھی بہتر طور پر اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں۔اس ملک کو آگے بڑھانا ہے اور اس کا طریقہ اسلامی ہی ہونا چاہیے اس کے بغیر ملک کا آگے بڑھنا مشکل ہے ۔واپس بنیادیں مضبوط کریں گے تو ملک بہتر ہو گا ۔حقیقی روح کی جانب لوٹیں گے تو ہی کامیابی ملے گی اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔

مزیدخبریں