دہشتگردی کے خلاف پوری قوت سے نمٹنا ضروری ہے

ضیاء الرحمن ضیاء 
ایک بار پھر ایک اور سانحہ پشاور نے ریاست کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ انتہائی المناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب خودکش حملہ آور نے پشاور کی ایک مسجد میں نماز ظہر کے دوران خود کو دھماکے سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں سو سے زائد افراد شہید ہو گئے۔ پوری قوم اس واقعہ پر سوگوار ہے ، دل خون کے آنسو رو رہے ہیں اور ہر آنکھ اشکبار ہے۔ اس سانحہ نے کتنے گھر اجاڑ دیے، کتنی عورتیں بیوہ اور بچے یتیم کر دیے۔ یہ ہماری تاریخ کا ایک سیاہ پہلو ہے جس نے کئی ایک سوالیہ نشان ہمارے حکمرانوں کے لیے خصوصی طور پر اور عوام کے لیے عمومی طور پر چھوڑ دیے ہیں۔ ہمارے سیاستدان فقط پیٹ کی جنگ لڑ رہے ہیںانہیں عوامی مفادات سے کوئی غرض نہیں ہے ۔ وہ مہنگائی ختم کرنے، بیروزگاری کم کرنے اور دہشتگردوں کا قلعہ قمع کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے ستائے ہوئے عوام کو دہشتگردی کا نیا تحفہ دیا جا رہا ہے۔ 
اس قوم نے ایک طویل عرصہ تک دہشتگردی سہی ہے۔ گزشتہ کم از کم بیس سال سے ہمارا وطن دہشتگردوں کے نشانے پر ہے اور دہشتگردی کے واقعات تسلسل کے ساتھ پیش آرہے ہیں ۔ ان میں ہمارے ہزاروں شہری اور افواج کے جوان شہید ہو چکے ہیں۔ ملکی معیشت کو جو نقصان پہنچا وہ علیحدہ ہے۔ انسانی خون کا بے دریغ ضیاع ہوتا رہا جس کا سلسلہ تھمنے کی بجائے ایک بار پھر بڑھنے لگا ہے۔ 2014ء میں پیش آنے والے سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے فوجی قیادت کے ساتھ مل بیٹھ کر نیشنل ایکشن پلان تیار کیا جس میں دہشتگردی کی کسی بھی صورت کو برداشت نہ کرنے کا فیصلہ ہوا اور دہشتگردوں کا قلع قمع کرنے کا عزم کیا گیا ۔ اس کے بعد ایک بڑا آپریشن ـ’ضرب عضب ‘کے نام شروع ہوا ، جس میں پوری قوم نے پاک فوج کے ساتھ مکمل تعاون کیا اور وہ آپریشن کامیاب ہوا اور دہشتگردوں کا بڑی حد تک خاتمہ کر دیا گیا۔ 
مگربدقسمتی سے آپریشن ضرب عضب میں بھی مکمل طور پر دہشتگردی کا خاتمہ نہ ہو سکا اور ان کی اکا دکا کاروائیاں جاری رہیںلیکن ان کا زور ٹوٹ چکا تھا۔ صرف اپنی موجودگی کے اظہار کے لیے دہشتگرد موقع ملنے پر چھوٹی موٹی کاروائیاں کرتے رہے مگر دہشتگردی کی گزشتہ تاریخ کے مقابلے میں یہ کاروائیاں نہ ہونے کے برابر تھیں یوں کچھ عرصہ تک تو وطن عزیز میں امن و امان قائم ہو گیا۔ پھر رفتہ رفتہ دوبارہ دہشتگردوں نے وطن عزیز میں کاروائیاں شروع کر دیں 2021ء سے ایک بار بھر ملک میں دہشتگردی کے واقعات پیش آنے لگے اور ان میں اضافہ ہونے لگا۔ 2022ء کے اختتام اور 23کی ابتداتک تو یہ عالم ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں جب ملک کے کسی علاقے میں دہشتگردی کا کوئی واقعہ پیش نہ آیا ہو۔ ان واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا رہا اور بالآخر سانحہ پشاو ر جیسا عظیم اور المناک سانحہ رونما ہوا جس میں سو سے زائد معصوم شہریوں کو نہایت بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ 
افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان میں دہشتگردی کی کاروائیوںمیں اضافہ ہوا ہے ۔ شاید دہشتگردوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور انہیں محفوظ ٹھکانے بھی میسر آ گئے ہیں۔ اگرچہ ہم بھی ان لوگوں میں سے تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان میں امن قائم ہو جائے گا، طالبان ہماری مغربی سرحد پردہشتگردوں کی آمد و رفت کا سلسلہ بند کر دیں گے مگر اب حالات کو دیکھتے ہوئے نہایت مایوسی اور افسوس ہو رہا ہے۔ہم نے اپنی مغربی سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے خاردار باڑ لگانے کا سلسلہ بھی شروع کیا تھا مگر اب تو وہ بھی غیر مؤثر محسوس ہو رہا ہے کیونکہ دہشتگردوں کی آمد و رفت کا سلسلہ تو جوں کا توں جاری ہے ، نہ جانے وہ باڑ کس کام کی ہے؟
 بہرحال ہمیں کسی کی طرف دیکھنے بجائے بزور بازو اپنے ملک کے حالات کو بہتر بنانا چاہیے۔ ہمیں نہ امریکہ ، نہ اقوام متحدہ اور نہ ہی افغانستان سے امیدیں وابستہ کرنی چاہئیں۔ ہمیں خود ہی ان دہشتگردوں سے پوری قوت کے ساتھ نمٹنا چاہیے۔ ایک بار پھر آپریشن ضرب عضب کی ضرورت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑے پیمانے پر آپریشن کی ضرورت ہے جس میں دہشتگردوں کی باقیات بھی باقی نہ رہیں۔ اگر ان کی باقیات کو چھوڑ دیا جائے تو وہ دوبارہ مضبوط ہو جاتے ہیں۔اب مذمتوں اور مذاکرات کا وقت نہیں ہے ہم نے یہ بہت کر کے دیکھ لیا ہے اس سے ذرا برابر افاقہ نہیں ہوتا۔ اس لیے اب ریاست کو اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے دہشتگردوں کے خلاف پوری قوت کے ساتھ بڑے پیمانے پر آپریشن کرنا ہوگا، یہی واحد راستہ ہے جس سے دہشتگردی کا خاتمہ ہوگا اور ملک میں امن قائم ہو گا۔ 

ای پیپر دی نیشن