شہرقائد میں منہ کا کینسر وباء کی مانند پھیلنے لگا

Feb 03, 2023


کراچی(اسٹاف رپورٹر) ماہرین امراض کینسر نے کہا ہے کہ پاکستان میں کینسر کے مریضوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے دو سو ریڈی ایشن مشینوں کی ضرورت ہے تاکہ کینسر کے مریضوں کا علاج ہو سکے کیونکہ ریڈی ایشن کے لیے مریضوں کو دو دو مہینوں کا وقت دیا جاتا ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی کینسر کی شرح کے پیش نظر کینسر کے علاج اور اسکی روک تھام کے لیے مشترکہ کوششیں ناگزیر ہیں ، کراچی میں منہ کے کینسر میں مبتلا بچے بھی رپورٹ ہورہے ہیں، پاکستان میں کینسر کی سب سے بڑی وجہ پان گٹکا چھالیہ اور اسی طرح کی دیگر اشیاہیں۔ پاکستان میں ہیڈ اینڈ نیک کینسر پہلے نمبر پر ہے ۔پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس میں کینسر فانڈیشن کے سربراہ ڈاکٹر عابد جمال، ماہر امراض سرطان ڈاکٹر محمد علی میمن، انڈس اسپتال میں پیڈیاٹرک آنکالوجسٹ ڈاکٹر احمر حامد، ماہر امراض سرطان ڈاکٹر شاہین، ماہر امراض خون ڈاکٹر ثاقب انصاری، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر عبد اللہ متقی، سیکریٹری ڈاکٹر ذیشان انصاری اور آغاخان اسپتال میں ریڈیئیشن انکولوجی کے ہیڈ ڈاکٹر بلال نے شرکت کی۔ڈاکٹر عابد جمال کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کینسر کی کوئی سینٹرل رجسٹری موجود نہیں ہے اس لیے کینسر کے مریضوں کے کوئی درست اعدادوشمار بھی موجود نہیں ہیں،البتہ یہ ضرور ہے کہ پاکستان میں بریسٹ کینسر میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس کی وجوہات کا علم نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سر اور گردن کے کینسر کی بڑی وجہ پان گٹکا چھالیہ اور نسوار ہیں۔ پاکستان میں ہیڈ اینڈ نیک کینسر پہلے نمبر پر ہے، پاکستان میں کینسر کے ایک مریض پر اندازا پندرہ لاکھ سے زائد اخراجات آتے ہیں، پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق کینسر کے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ کے درمیان ہے جن میں سے دس سے پندرہ ہزار مریضوں کامیاب علاج ہو سکے گا باقی کینسر کے مریضوں کا مکمل علاج نہیں ہو سکتا انہیں صرف پلی ایٹو کیئر پر رکھا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ منہ کے کینسر مین مبتلا مریضوں کی اکثریت بیس سے پچاس سال کی عمر کے افراد کی ہے جو آپ کے ملک کا سرمایہ ہیں اور ان کے خاندانوں کا انحصار ان پر ہے۔انہوں نے کہاکہ پان گٹکے پر پابندی پر عملدرآمد کر کے انہیں بچایا جا سکتا ہے۔ڈاکٹر محمد علی میمن نے کہا کہ کینسر کی بیماری ایپیڈیمیک کی طرح پھیل رہی ہے ، پاکستان اٹامک انرجی کے 19مراکز کینسر کے مریضوں کا ڈیٹا اکھٹا کرتے ہیں اور یہ کام ہم پانچ سال سے کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مختلف علاقوں میں مختلف مسائل ہیں، پوری دنیا میں کینسر کے سالانہ 21ملین نئے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، پاکستان میں یہ تعداد ایک سے ڈیڑھ لاکھ کے درمیان ہے۔ڈاکٹر محمد علی نے کہا کہ 40سے پچاس فیصد کینسرسے بچاؤ ممکن ہے۔  اگر ان کی جلد تشخیص ہوجائے تو کینسر کے مریضوں کا علاج آسان ہوجاتا ہے اور اس پر قابو پاکر اسے پھیلنے سے روک سکتے ہیں، کراچی میں منہ کا کینسر پہلے نمبرپر اور دنیا میں دسویں نمبر پر ہے۔انہوں نے کہا کہ صرف کراچی ہی نہیں ٹھٹہ اور بدین اور ساحلی پٹی پر منہ کا کینسر بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ڈاکٹر شاہین نے کہا کہ پان گٹکا چھالیہ غریب علاقوں کے مسائل ہیں اور ان ہی علاقوں میں منہ کا کینسر تیزی سے پھیل رہا ہے، ہمیں بچوں کو تعلیم اور آگہی دینا ہوگی ، ہم اسکولز میں اویرنیس دے رہے ہیں اور کچی آبادیوں میں کیمپ لگا رہے ہیں۔ڈاکٹر احمر حامد نے کہا کہ انڈس اسپتال میں 11سے 12سال کی عمرکے بچے منہ میں چھالوں کے ساتھ رپورٹ ہوتے ہیں جو آگے چل کر کینسر کی شکل اختیار کرجاتا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ بچوں میں پان گٹکا اور چھالیہ کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر بچے غریب علاقوں سے آتے ہیں، پاکستان میں کینسر کی بڑھتی ہوئی شرح اور اس کا دبا ہم برداشت نہیں کر سکتے اس کا واحد حل پری وینشن ہی ہے، انہوںنے کہا کہ 20فیصد اموات منہ اور بریسٹ کیسرز سے ہوتی ہیں، اس کے لیے ہمیں مشترکہ طور پر مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر ثاقب انصاری نے کہا کہ ملک میں بڑھتی ہوئی کینسر کی شرح اور اس دباؤ کا حکومت اور کوبھی ادارہ اکیلے مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ڈاکٹر بلال نے کہا کہ کینسر کے مریض کا علاج کسی ایک ایکسپرٹ کا کام نہیں ہے بہت سی فیلڈز کے لوگ مل کر کینسر کے مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ 

مزیدخبریں