کیماڑی واقعہ اور شہر قائد میں ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ


شہر قائد میں ماحولیاتی آلودگی کے تباہ کن اثرات تواتر کے ساتھ سامنے آنے شروع ہوگئے ہیں۔ کیماڑی مواچھ گوٹھ واقعہ اسی تسلسل کا تیسرا واقعہ ہے جبکہ یہ اس شہر کی بدقسمتی ہے کہ صوبائی یا وفاقی دونوں ہی حکومتیں صنعتی شہر کی اس صورتحال کا بخوبی ادراک رکھنے کے باوجود ان مسائل سے نمٹنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ کراچی کی بندرگاہ اور دیگر علاقوں کی فضا ویسے ہی آلودہ ہے جبکہ ڈسٹ الرجی بہت عام ہے ۔ ایسے میں زہریلا کیمیکل و دیگر صنعتی فضلہ شہریوں کی جانوں کو شدید خطرات لاحق کئے ہوئے ہے۔کیماڑی کے مواچھ گوٹھ میں مبینہ طور پر غیرقانونی فیکٹریوں سے نکلنے والے دھویں سے ہونے والی ہلاکتوں سے گمان تھا کہ شاید متعلقہ محکموں اور اداروں کی آنکھیں کھل جائیں گی تاہم ایسا نہ ہوسکا۔ بیوروکریسی ہمیشہ کی طرح روایتی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے معاملے کو دبانے کی کوشش میں کامیاب ہو چکی ہے جس کے نتیجہ میں اس قدر سنگین معاملہ اس قدر آسانی سے نظروں سے اوجھل ہوتا جا رہا ہے کہ جس میں 20افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جن میں بچوں کی اکثریت ہے ۔ کراچی کے شہریوں کے لئے یہ کوئی نئی اطلاع نہیں کہ یہاں کے مختلف رہائشی علاقوں میں بڑی تعداد میں غیر رجسٹرڈ اور غیر قانونی فیکٹریاں کام کر رہی ہیں اور حکومتی اداروں نے بوجوہ انہیں بغیر کسی روک ٹوک کام کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ ان فیکٹریوں میں کتنے کارکن کام کر رہے ہیں۔ محکمہ محنت کا کہنا ہے کہ فیکٹریاں رجسٹرڈ نہیں ہیں اور صوبائی محکمہ محنت کے پاس مزدوروں کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔مواچھ گوٹھ کراچی سے بلوچستان جانے والی شاہراہ حب ندی روڈ پر بلدیہ کے قریب واقع ہے۔ یہ کراچی شہر کی ایک قدیم آبادی سمجھی جاتی ہے۔ اس کے علی محمد محلے میں گذشتہ چند سالوں سے گھروں کے درمیان بڑے پلاٹوں پر کھلے آسمان تلے صنعتی گودام نما کارخانے قائم ہیں۔ مقامی افراد کے مطابق ان کارخانوں میں مختلف اقسام کے تیل بنائے جاتے ہیں اور حال میں ایک نئی فیکٹری کھلی ہے جس میں پتھر جلاکر کوئی دھات حاصل کی جاتی ہے۔ ہلاکتوں کی خبر کے بعد محکمہ صحت کے حکام نے علاقے کا دورہ کیا تو پتہ چلا کہ دیگر کئی لوگ بیماریوں سے متاثر ہیں۔ سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کو فیکٹری کے ماحولیاتی اثرات کی ذمہ داریوں سے بری نہیں کیا جا سکتا۔ کراچی کے نوزائیدہ ضلع کیماڑی کے علاقہ مواچھ گوٹھ میں رونما ہونے والے اس دلخراش واقعہ پر طبی اور ماحولیاتی ماہرین کی رپورٹ میں کئی انکشافات سامنے آئے ہیں۔ ماہرین کی خصوصی کمیٹی نے دو روز تک انٹرویو، مختلف ٹیسٹس اور سائنسی بنیادوں پر تجزیے کے بعد رپورٹ مرتب کی ہے۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ انتقال کر جانے والے زیادہ تر بچوں کی عمر دو سے چار سال کے درمیان ہے جبکہ مزید 13 افراد کے خون کے نمونے لے کر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز بھیج دیے گئے ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ علاقہ مکینوں کے کے مطابق مواچھ گوٹھ میں ربڑ، پلاسٹک اور سٹون فیکٹری کھلنے کے بعد عجیب سے بو بھی محسوس کی گئی ہے۔تاہم 26جنوری کو فیکٹری سیل ہونے کے بعد بو محسوس نہیں کی گئی۔ ماہرین کی کمیٹی نے متاثرہ مواچھ گوٹھ سے متصل پانچ کلومیٹر کے علاقے میں ویکسینیشن کی سفارش بھی کی ہے جبکہ خسرہ سے بچا و¿کی ویکسین کروانے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اموات کی وجہ ماحولیاتی آلودگی یا زہریلی گیسیں نہیں تاہم یہ کسی متعدی بیماری یا زہریلا کھانا بھی ہو سکتے ہیں۔ حکومت نے تین فیکٹریوں کو سیل کرنے اور ایک فیکٹری کے مالک کو گرفتار کرنے کا دعوی کیا ہے۔ تاہم متاثرین کوکوئی معاوضہ فراہم نہیں کیا۔علاقہ مکینوں نے شکوہ کیا ہے کہ محکمہ صحت کی ہدایت کے باوجود کے اس علاقے میں 24گھنٹے میڈیکل کیمپ، ڈاکٹروں کی ٹیم اور ایمبولینس موجود رہے گی، ایسا نہ ہو سکا اور رات کو علاقے میں نہ تو میڈیکل ٹیم موجود ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی ایمبولینس۔ حکومت کو چاہیے کہ گاو¿ں کے متاثرہ لوگوں کو فوری ریلیف اور معاوضہ فراہم کیا جائے اور سرکاری محکموں کی ذمہ داریوں کے تعین کے لیے اعلی سطحی انکوائری کرائی جائے۔ حکومت آلودگی سے عوام کی جان کو لاحق خطرات سے بچاو¿ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرے۔ دوسری جانب سول سوسائٹی کا اس معاملہ میں سرگرم ہونا خوش آئند ہے۔ سول سوسائٹی کے کارکنوں نے واقعہ کے حوالے سے متعلقہ سرکاری محکموں کو خطوط لکھنے اور اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں طے کرنے کا فیصلہ کیا۔ انسانی حقوق کے کارکنوں نے وزیر اعلیٰ سندھ سے مطالبہ کیا کہ سیپا حکام کو اسکی تحقیقات کا حکم دیا جائے۔یاد رہے کہ دو سال قبل کیماڑی کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے والے امریکی نحری جہاز سے مبینہ زہریلی گیس کے اخراج کا شبہ کیا گیا تھا جس سے 10 افراد ہلاک اور تقریباً 300افراد متار ہوئے تھے۔جس کے بعد بڑے پیمانے پر تحقیقات شروع ہوئیں تاہم اس کے نتائج کیا نکلے؟ کسی کو معلوم نہیں۔ اسی طرح کی صورتحال غالباً 2016 ےا 2017 میں بھی پیش آئی تھی جب کراچی بندرگاہ پر کوئلے کی آف لوڈنگ کی جاتی تھی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سانحات سے بچنے کے لئے جامع تحقیقات کی جانی چاہیے تاکہ احتیاتی تدابیر اپنا کر مستقبل میں ایسی صورتحال سے بچا جا سکے۔

ای پیپر دی نیشن