دیرینہ شکوک و شبہات اور تحفظات کے درمیان، بے صبری سے منتظر اور طویل التواء عام انتخابات 8 فروری کو ہوں گے۔12 اگست 2018 کو، جب 15 ویں قومی اسمبلی کے نومنتخب ایم این ایز نے حلف اٹھایا، ملک کو توقع تھی کہ اگلے انتخابات مثالی طور پر 12 اکتوبر 2023 کے آس پاس ہوں گے – جب اس کی آئینی طور پر دی گئی پانچ سالہ میعاد ختم ہو جائے گی۔ مدت کے ساتھ ساتھ نگراں سیٹ اپ کو انتخابات کرانے کے لیے زیادہ سے زیادہ 90 دن کی اجازت ہے۔تاہم، سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے تدبیر اور وقت سے پہلے اپنی حکومت کو 9 اگست 2023 کو تحلیل کر دیا – اس کی مکمل مدت پوری ہونے سے تین دن پہلے – جس کا مطلب تھا کہ نگران سیٹ اپ کو اب زیادہ سے زیادہ 90 دن کی مہلت دی گئی تھی۔ انتخابات کے انعقاد کے لیے۔اس وقت بھی، عام انتخابات 12 نومبر کے آس پاس کہیں ہونے چاہیے تھے، لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) کی طرف سے اس کی بجائے اصل تاریخ کا اعلان 8 فروری ہے – تقریباً تین ماہ بعد۔جس کی وجہ ملکی معاشی بحران کا حد سے تجاویز کر جانا تھا اور ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرزنیانتہائی سمجھداری کاثبوت دیتے ہوئے پہلے معاشی بحران سے ملک کو سنبھالنے کیلئے ضروری اقدامات اٹھانیکا فیصلہ کیا اور کافی حد تک ملکی معیشت کو سنبھالا۔اس وقت چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) سکندر سلطان راجہ کے ساتھ ملاقات میں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے نمائندے نے ملک کو درپیش ایک اور بڑے مسئلے کے حوالے سے بتایا کہ دہشت گردی کا خطرہ ہے اور دونوں صوبوں میں عسکریت پسندی کی تازہ لہر کی وجہ سے انتخابات کو تین سے چار ماہ کے لیے ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا۔ ملاقات کے دوران، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے پنجاب کے جوائنٹ ڈائریکٹر نے پنجاب میں افغانستان سے مسلح عسکریت پسندوں کی موجودگی کے بارے میں بھی بات کی۔جس پر نہایت ضروری سمجھتے ہوئے اور صدر کی طرف سے مقرر کردہ تاریخ کو قبول کرنے کے باوجود، ای سی پی نے اچانک پنجاب کے انتخابات کو تقریباً چھ ماہ کے لیے 8 اکتوبر تک ملتوی کر دیا کیونکہ ''پولیس اہلکاروں میں بڑے پیمانے پر کمی'' اور ایک جامد قوت کے طور پر فوج کے اہلکاروں کی عدم فراہمی کا حوالہ دیا گیا۔ای سی پی کے حکم نامے میں لکھا گیا، ’’کمیشن انتخابی مواد، پولنگ عملے، ووٹرز اور امیدواروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے متبادل انتظامات کرنے سے قاصر ہے۔‘‘اس میں مزید کہا گیا ہے کہ وزارت خزانہ نے ''ملک میں مالی بحران اور غیر معمولی معاشی بحران کی وجہ سے فنڈز جاری کرنے میں ناکامی'' بھی ظاہر کی ہے۔تحریک التواء سے ناراض پی ٹی آئی کے عمران نے کہا کہ انہوں نے دو صوبائی اسمبلیاں اس لیے تحلیل نہیں کیں کہ ''فاشسٹوں کے ایک گروپ نے آئین اور قانون کی حکمرانی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دہشت گردی کا راج مسلط کیا۔
قارئین!17 دسمبر 2022 کو، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM) کی زیرقیادت تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے تقریباً آٹھ ماہ بعد، اس وقت کے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اعلان کیا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ان کی پارٹی کی حکومتیں تحلیل ہو جائیں گی۔اس اعلان پر بڑے اعتراضات کے ساتھ ساتھ پی ایم ایل این اور پی پی پی کے رہنماؤں کی طرف سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا - جو اس وقت کی حکمران PDM حکومت کی اہم قوتیں تھیں۔ بعد ازاں، ن لیگ نے اعلان کیا کہ اگر پی ٹی آئی دونوں اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے فیصلے پر عمل کرتی ہے تو وہ الیکشن لڑنے کے لیے تیار ہے۔ماہرین کا خیال تھا کہ اپنی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرکے عمران سیاسی دباؤ بنانا چاہتے تھے لیکن ان پر ایسا کرنے کی کوئی قانونی ذمہ داری نہیں تھی۔دریں اثنا، عمران نے ان خدشات کا اظہار کیا کہ حکومت اکتوبر 2023 میں بھی عام انتخابات نہیں کرائے گی - ایک پیشین گوئی جو بالآخر سچ ثابت ہوئی۔ ان کی پارٹی ان کی کمان کی پابند ہو گئی اور جنوری تک دونوں اسمبلیاں تحلیل ہو گئیں اور نگراں سیٹ اپ نے اقتدار سنبھال لیا۔یہ اعلان کون کرے گا اور انتخابات کب ہو سکتے ہیں اس پر ایک طویل قانونی کشمکش کے بعد صدر ڈاکٹر عارف علوی نے ای سی پی کی مشاورت سے پنجاب میں دوبارہ انتخابات کے لیے 30 اپریل کا انتخاب کیا۔دو بڑی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) (پی ایم ایل این) ہیں، جن کی قیادت سابق وزیراعظم نواز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی قیادت میں سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کررہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف اپنے امیدواروں کو آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں اتار رہی ہے۔تحریک انصاف کی جانب سے انٹراپارٹی الیکشن نہ کرانے جیسے غیر آئینی اقدام کے باعث سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انتخابات کے دوران ان کا انتخابی نشان بلاانہیں الاٹ نہیں کیا گیا۔
ماضی میں پاکستان میں عام انتخابات بدھ 25 جولائی 2018 کو سبکدوش ہونے والی حکومت کی پانچ سالہ مدت پوری ہونے کے بعد منعقد ہوئے۔ قومی سطح پر 272 حلقوں میں انتخابات ہوئے جن میں سے ہر ایک نے ایک رکن قومی اسمبلی کا انتخاب کیا۔ صوبائی سطح پر، چاروں صوبوں میں سے ہر ایک میں اراکین صوبائی اسمبلی (ایم پی اے) کے انتخاب کے لیے انتخابات ہوئے۔انتخابات کے نتیجے میں، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) مقبول ووٹ اور نشستوں دونوں کے لحاظ سے قومی سطح پر واحد سب سے بڑی جماعت بن گئی۔ صوبائی سطح پر پی ٹی آئی خیبرپختونخوا (کے پی) میں سب سے بڑی جماعت رہی۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سندھ میں سب سے بڑی جماعت رہی اور نو تشکیل شدہ بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) بلوچستان کی سب سے بڑی جماعت بن گئی۔ پنجاب میں، ایک معلق پارلیمنٹ غالب رہی جس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) (پی ایم ایل این) کم فرق سے براہ راست منتخب نشستوں کے لحاظ سے سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔ تاہم، پاکستان مسلم لیگ (ق) کی حمایت اور آزاد ایم پی اے کی پی ٹی آئی میں شمولیت کے بعد، مؤخر الذکر سب سے بڑی جماعت بن گئی اور حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔جس کو اس وقت انتخابات میں حصہ لینے والی تمام پارٹیوں نے دھاندلی کے الزامات پرالیکشن کمیشن کی جانب سے ابہام دور کرنے پر قبول کیا اور پی ٹی آئی کی حکومت کو ساڑھے تین سال کا وقت دیا۔حالیہ الیکشن 2024کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش جاری ہے عوام کو چاہیے کہ فضول کے پروپیگنڈوں اور انتشاری سیاست کو مسترد کرکے انتخابات میں بھرپور حصہ لیں اور جمہوری اقدار کو آگے بڑھائیں اور پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں اپنے اہم کردار ادا کریں۔
الیکشن 2024!عوام کا اہم کردار
Feb 03, 2024