پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو سائفرکیس میں خصوصی عدالت نے دس سال قید با مشقت کی سزا سنائی ہے اورآفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے بطور وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ اپنے عہد کی خلاف ورزی کی، پاکستان اور امریکا کے تعلق کو نقصان پہنچایا، دونوں نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا۔خصوصی عدالت برائے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی عدالت کا کہنا ہے کہ فائنڈنگز میں کہا گیا کہ فیئر ٹرائل کا حق چالاک ملزم کے لیے نہیں، سائفر کو اپنے لیے استعمال کیا گیا جس کا اثر پڑا، بطور وزیرِ اعظم اور وزیر خارجہ اپنے عہد کی خلاف ورزی کی، پاکستان اور امریکا کے تعلق کو نقصان پہنچا۔جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 سیکشن 5 تھری اے ثابت ہوتی ہے، شاہ محمود قریشی سائفر کی حساسیت سے بخوبی واقف تھے، شاہ محمود قریشی نے27 مارچ 2022ء کو جلسے میں بانی پی ٹی ا?ئی سے قبل خطاب کیا، سابق وزیر بھی آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 سیکشن 5 تھری اے اور پی پی سی 34 کے مرتکب ہوئے ہیں، بانی پی ٹی آئی‘ شاہ محمود قریشی ہمدردی نہ نرمی کے مستحق ہیں، مجرمان کے عمل سے پاکستان کو سیاسی، سماجی، معاشی اور خارجہ تعلقات پر اثر پڑا ہے۔
سائفر کے تمام کیس کی تفصیلات اور تفصیلی فیصلہ کے متعلق بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ سابق وزیراعظم نے عدالت کے مطابق ایک حساس دستاویزات کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا اور انہوں نے سیاست میں کرسی کے حصول کیلئے یہ بھی نہ دیکھا کہ ان کے اس اقدام سے پاکستان کی دنیا میں ساکھ کو کتنا نقصان پہنچ رہا ہے۔
پہلے اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار ایک سائفر کو قرر دیتے رہے کہ یہ سائفر آگیا ہے اور جب عدالت میں کہا گیا کہ سائفر پیش کیا جائے تو کہا وہ تو سادہ کاغذ تھا ،کبھی امریکہ کو، کوبھی ن لیگ کو کبھی لندن سازش پلان کو تو کبھی جنرل باجوہ کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار قرار دیتے رہے۔ جب اقتدار میں تھے تو کہا کرتے تھے کہ آئی ایس آئی کو حق حاصل ہے کہ وہ فون ٹیپ کرے اور ایک چیک رکھے حکومت پر لیکن جب اقتدار سے رخصت ہوئے تو اپنی ہی ملک کی ایجنسی کیخلاف بیان داغنا شروع کر دیے۔ اپنے حریفوں کو چور چور کہتے رہے، انہیں چور اور ڈاکو کہ کر مخاطب کرتے رہے لیکن خود توشہ خانہ کی چوری میں ملوث پائے گئے۔پھر جب ان کیخلاف عدلیہ متحرک ہوئی تو عدالتوں پر الزام تراشی کی جانے لگیں، موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کیخلاف ان ہی کی حکومت میں ریفرنس دائر کیا گیا اور پھر بعد میں اس سے بھی مکر گئے کہ وہ ریفرنس میں نے نہیں دائر کیا تھا کہیں اور سے آیا تھا یعنی عمران خان بیک وقت یوٹرن اور کرپشن کر بھی رہے ہوتے تھے اور اس کا الزام دوسروں پر لگا کر اپنے پیروکاروں کے سامنے پارسائی کا ڈھونگ بھی رچا رہے ہوتے تھے۔ جس جج محمد بشیر نے انہیں توشہ خانہ کیس میں مجرم قرار دیا اور ان کی اہلیہ کو بھی انکے ساتھ برابر کا قصور وار قرار دیا ہے۔
یہ وہی جج ہیں جب انہوں نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز اور نوازشریف کو سزا سنائی تھی تو اسی جج کو عمران خان نے اس وقت ہیرو قرار دیا تھا، آج پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ونگز کے ذریعے مذکورہ جج کیخلاف گھنائونی مہم چلائی جا رہی ہے۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان کے پاس اب جیل میں وقت ہی وقت ہے تو انہیں سوچنا چاہئے کہ ان سے اقتدار کے دوران کہاں غلطیاں ہوئیں۔اب ذرا الیکشن کا جائزہ لے لیں تو اس وقت سیاسی جماعتیں جلسے جلوس کر رہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ نفرت کی سیاست کو بھی پروان چڑھا رہی ہیں اور سیاسی رہنما وہی الزام تراشیاں کر رہے ہیں کہ فلاں لیڈر چور، لٹیرا اور ملک کیلئے خطرناک ہے تو کوئی کہتا ہے کہ فلاں لیڈر کے ہونے سے ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ اس نفرت کی سیاست کا پاکستان پہلے ہی بہت دکھ جھیل چکا ہے اب اس سیاست کو ختم ہونا چاہئے اور دوسرا سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر ڈسپلن قائم کرنا ہو گا کیوں کہ ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ انتخابات کے دوران سیاسی جماعتوں کے امیدوار انتخابی قوانین کی دھجیاں اڑا رہے ہیں اور ایک دوسرے پر الزام تراشی تو کر ہی رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی جماعتی ڈسپلن کی خلاف ورزی کے مرتکب بھی ہو رہے ہیں۔
اگر کسی ایک سیاسی جماعت کے ایم پی اے کو اپنا ایم این اے پسند نہیں تو وہ منافقت کرتے ہوئے حریف سیاسی جماعت کے ایم این اے کی حمایت کر رہا ہے، اسی طرح ایم این اے کی مرضی کا اگر ایم پی اے اس کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں ہو سکا تو وہ بھی اپنی ہی جماعت کے ایک امیدوار کو ہرانے کیلئے حریف سے ساز باز کر رہا ہے اور الیکشن کمیشن بھی اس پر خاموش ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ اس پر سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر ڈسپلن قائم کرنے کی ضرورت ہے بلکہ الیکشن کمیشن کو بھی اپنے ضابطہ اخلاق پر عمل کرانا چاہئے تا کہ لوگ پاکستان کی سیاست سے متنفر نہ ہوں۔
٭…٭…٭
سائفر، توشہ خانہ اور منافقت کی سیاست
Feb 03, 2024