ہفتہ‘ 22رجب المرجب 1445ھ ‘ 3 فروری 2024ء

جے یو پی کے تمام امیدوار پیپلز پارٹی کے حق میں دستبردار  ہو گئے۔
انتخابات کے اعلان کے بعد مسلم لیگ ن کیساتھ سب سے پہلے ایم کیو ایم نے‘ پھر جے یو پی نے اتحاد کیا تھا۔ اب خبر آئی ہے کہ جے یو پی نے تمام سیٹوں سے اپنے امیدوار پیپلز پارٹی کے حق میں دستبردار کرالئے ہیں۔ اس کے لیے باقاعدہ ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ کو دلہا میاں کی حیثیت دی گئی۔شرجیل میمن میزبان تھے۔ تمام تر سیٹوں سے دستبرداری کے باوجود جے یو پی کی 13 قومی اسمبلی کی نشستوں پر الیکشن لڑنا مجبوری یے ،اس لیے ہے کہ پیپلز پارٹی 266 میں سے 252 سیٹوں پر الیکشن لڑ رہی ہے۔ ان نشستوں سے جے یو پی کے امیدوار بیٹھ گئے باقی تیرہ پر کھڑے رہیں گے۔ کیونکہ اس "بڑی پارٹی" نے کوئی سیٹ شاید خالی نہیں چھوڑی تھی۔ پیپلز پارٹی کی پورے ملک میں کلین سویپ کرنے میں جو کسر رہ گئی تھی وہ جے یو پی نے اتحادی بن کر پوری کر دی ہے۔ 266 نشستوں پر پی ٹی آئی نے ٹکٹ جاری کئے ہیں مگر ہر امیدوار بے بلا اور آزاد ہے۔ تحریک لبیک اور مرکزی مسلم لیگ نے بھی کوئی سیٹ خالی نہیں چھوڑی۔پی ٹی آئی نے 2002ء کے الیکشن میں بھی ہر سیٹ پر امیدوار کھڑا کیا تھا۔حصے میں واحد عمران خان کی ایک اپنی سیٹ آئی تھی۔ جس جے یو پی نے پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا اس کے سربراہ مولانا ابوالخیر محمد زبیر ہیں۔ جبکہ ن لیگ کے ساتھ جڑی  جے یو پی کے انس نورانی قائد ہیں۔ ایک جے یو پی ستار نیازی بھی ہے.وہ کہاں ہے؟ واللہ اعلم ؟
٭٭٭٭٭ 
وعدہ یاد دلانے پر فردوس آپا ناراض ہو گئیں۔
سیالکوٹ میں اپنے حلقے میں آئی پی پی کی سیکرٹری اطلاعات انتخابی مہم میں اتری ہوئی ہیں۔ ان کو خواتین ووٹر نے سوئی گیس کی فراہمی کا پرانا وعدہ یاد دلایا تھا۔ پرانا وعدہ یاد دلانے پر ناراضی تو بنتی تھی۔ کوئی نیا وعدہ یاد کرائو۔ فردوس صاحبہ نے ووٹرز کے اس رویے کو بدتمیزی پر محمول کیا اور گلے سے ہار اتار پھینکے۔ یہ ہار پھولوں کے تھے یا نوٹوں کے تھے ، انہی لوگوں نے پہنائے تھے یا اس سے پہلے جس گائوں میں گئی تھیں انہوں نے پہنائے؟؟؟۔ ایسے کئی سوالات ہیں۔ سوال کرنے والیوں نے اپنے پائوں پر جھاڑو جھاڑ لیا ہے۔ایک دو ان  میں سے منہ پھٹ ہو نگی۔ آپا  ہتھ چھٹ  بن سکتی تھیں مگر انتخابی مہم میں ایسا کوئی بھی سیاستدان افورڈ نہیں کر سکتا۔ وہ بھی نہیں جوکہتے ہیں اب ہماری باری ہے اور اوپر بات ہو گئی ہے۔ فردوس صاحبہ سے ان کو بدتمیزی مہنگی پڑے گی۔ پتہ چلے گا جب جن چولہوں کیلئے گیس مانگی جارہی ہے  وہ چولہے ہی اٹھا لیے اور الٹا دئیے جائیں گے کیوں کہ آپا نے پارلیمنٹ پہنچنا ہی پہنچنا ہے وہ الیکشن جیتیں یا ہاریں۔ ہار گئیں تو بھی دوچانس ہیں۔ خصوصی نشست، وہاں بھی دال نہ گلی اور بات نہ بنی تو سینیٹ میں گل پکی ہے۔
٭٭٭٭٭
سعودی پلٹ مسافر ایئر پورٹ پر گرفتار 
مسافر کا نام سکندر بتایا گیا ہے۔ عمرے کے ویزے پر مقدر کا سکندر بننے سعودی عرب گیا دائو نہ چل سکا تو قلندر بن کر لوٹ آیا۔ لوٹ کیا آیا وہاں سے دھکا دیا گیا۔ انسان تھا رکشہ نہیں تھا جو دھکے سے سٹارٹ ہو جاتا۔ سکندر سے یاد آیا آج ہی ایک اور سکندر کی خبر لگی ہے جو ملائیشیا کا بادشاہ بنا ہے ان کا نام سلطان سکندر ہے۔ ہمارے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان ہیں۔ یہ بھی مقدر کے سکندر سے کم نہیں تاہم سلطان سکندر کچھ بڑھ کر ہیں۔ ان کے اثاثوں کی مالیت 57 ارب ڈالر ہے۔ اپنے طیارے، تین سو کاریں اور ذاتی فوج رکھتے ہیں۔ اب بادشاہ بھی بن گئے۔ اب پھر آ جائیں اپنے اس سکندر کی طرف جِسے ڈی پورٹ کیا گیا ہے۔اس کے پاس شنجن ویزہ تھا جس پر اس نے سعودی عرب سے یورپ جانے کی کوشش کی۔ جعلی ویزہ تھا  پکڑا گیا سلطان پھڑیا گیا۔ یہ ویزہ بھی اس نے 20 لاکھ روپے میں حاصل کیا تھا۔ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔ سعودیہ سے نکلا کراچی ایئر پورٹ پر دھر لیا گیا۔ مگر وہ خوش ہے۔ کہتا ہے جان ہے تو جہاں ہے۔ شنجن ویزے پر سعودیہ سے یورپ نہ جا سکا پاکستان آ گیا۔ پولیس نے ہمیشہ تو مہمان نہیں رکھنا۔اصل ویزے پر یورپ جانے کی ٹرائی کروں گا۔ نہ بھی گیا تو خیر ہے جان ہے تو…-جعلسازوں نے ایمانداری سے دو نمبری کی ہے۔ فراڈ کیا نہ دھوکہ دیا ورنہ تو کسی ساحل پر فائرنگ یا سمندر میں مچھلیوں کی خوراک بن چکا ہوتا۔ واہ خوش گمانی تیرا آسرا۔ 
٭٭٭٭٭
پتنگ فروش رنگے ہاتھوں گرفتار 
یہ گرفتاری لاہور میں پولیس نے ڈالی ہے۔ ظاہر ہے پولیس ایسے کام کر سکتی ہے۔ گرفتاری سے قبل اس کی گردن پر ہاتھ ڈالا۔ اس کے قبضے سے بھاری مقدار اور بڑی تعداد میں پتنگ سازی کا سامان برآمد ہوا تھا۔  سامان میں ہزاروں مالیت کی رنگ برنگی 150 گڈیاں، رنگ برنگی نہ ہوتیں تو جرم کی شدت کچھ کم ہو سکتی تھی۔ 20 کیمیکل کا مانجھا لگی چرخیاں بھی اس کے پاس موجود تھیں۔ کیمیکل والی ڈور سے پتنگ کٹنے پر کوئی زخمی بھی ہو سکتا تھا لہٰذا اقدام قتل کی دفعہ 307 لگ سکتی تھی۔ ڈور کئی لوگوں کی جان بھی لے چکی ہے۔ تو پھر دفعہ 302 ہی کیوں نہ لگا دی جائے۔ پولیس نے ایسا کیا نہیں ہو گا ملزم کو کہا ضرور ہو گا۔ یہ سن کر ملزم کا تراہ نہ نکلے ممکن نہیں۔یہی ملزم کراچی میں ہوتا تو بڑی آسانی سے چکمہ دے جاتا کہ یہ تو انتخابی نشان کی مشہوری کے لئے ہے۔ لاہور میں چکمہ نہیں دے سکتا تھا بلکہ جو دیا جانا چاہیے تھا وہ نہیں دیا تو پولیس نے اندر دیدیا۔ یہی ایک تھا جس نے بسنت پر خطرناک ڈور اور گڈیاں فروخت کرنی تھیں۔ یہ راکھشش پکڑا گیا اب لاہور میں کوئی پتنگ اور گڈی شْڈی نہیں اْڑے گی۔

ای پیپر دی نیشن