خطے میں دلچسپ تبدیلی ہوئی ہے۔ اردن میں امریکی اڈّے ٹاور 22 پر عراق میں ایران کی پراکسی تنظیم مزاحمت اسلامی نے حملہ کیا جس پرمشتعل ہو کر امریکہ نے جوابی کارروائی کی دھمکی دی۔ ایران نے اسے محض دھمکی سمجھا اور جوابی دھمکی دی کہ امریکہ نے حملہ کیا تو اس کی فیصلہ کن ایسی کی تیسی کر دیں گے۔ پھر اسے انٹیلی جنس معلومات ملیں کہ امریکہ جوابی کارروائی میں سنجیدہ ہے اور وہ عراق و شام میں ایرانی اڈوں کے علاوہ، خلیج فارس میں اس کے بحری جہازوں نیز ایرانی ساحل کے ساتھ ساتھ اس کی اہم تنصیبات پر بھی حملہ کر سکتا ہے۔ ان اطلاعات کے بعد ایران نے پالیسی میں تبدیلی کیلئے ڈرامائی اور غیر متوقع اقدامات کئے۔ سب سے پہلے لبنان میں ایران کی پراکسی حزب اللہ نے تحریری بیان جاری کیا کہ آج کے بعد سے وہ امریکی مفادات پر حملے نہیں کریں گے۔ دوسرے دن ایران کے حوالے سے اطلاع آئی کہ اس نے شام اور عراق میں اپنی تمام پراکسیز کو حکم دیا ہے کہ وہ فوری طور پر امریکی ، اسرائیلی مفادات پر حملے روک دیں اور اصل دھماکہ اس کے بعد ہوا جب ایران نے یکایک شام سے اپنے تمام فوجی افسر واپس بلا لئے۔
شام میں بشارالاسد کی حکومت کیخلاف وسیع بغاوت 2012ء میں شروع ہوئی تھی اور چند مہینوں میں باغیوں نے ملک کے 75 فیصد رقبے پر قبضہ کر لیا جن میں البیود (حلب) دیر الرْور، الرقہ، حما، حمص، ادلیس وغیرہ کے علاوہ دمشق کے چوطرف کے تمام قصبات بھی شامل تھے۔ دمشق کے جنوبی حصوں پر بھی ان کا قبضہ تھا۔ بشارالاسد کے قبضے میں صرف دمشق، الطاکیہ اور طرطوس رہ گئے، پھر یک لخت روس اور ایران کی فضائیہ نے امریکی فضائیہ سے مل کر باغیوں پر بمباری شروع کر دی۔ دس لاکھ انسان اس بمباری میں مارے گئے، تمام شہر اور قصبے کھنڈرات بن گئے اور باغی شمال تک محدود ہو گئے۔ اس وقت شام کا 66 فیصد رقبہ حکومت، باقی کرد باغیوں اور دوسرے باغیوں کے پاس ہے۔ بغاوت کے احیا کے ڈر سے ایران اور روس کی فوجیں تب سے شام میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ اسرائیل نے بشارالاسد کو آگاہ کیا کہ ایرانی فوجی شام کے نصف شمال میں رہیں تو کوئی حرج نہیں، نصف جنوب میں آئے تو حملے کریں گے چنانچہ جب بھی ایران نے نصف جنوب میں اڈے بنانے کی کوشش کی اسرائیل نے بمباری کر کے وہ اڈہ تباہ کر دیا۔
اب ایران نے متوقع امریکی حملوں کے ڈر سے شام خالی کر دیا ہے تو نہ صرف شام کے حالات میں نئے مدّو جزر کا اندیشہ ہے بلکہ خطے کی مجموعی سلامتی بھی تبدیلیوں کی زد میں آئے گی۔ عراق کا معاملہ یہ ہے کہ وہاں ایرانی فوج نہیں لیکن ایران کی پراکسیز ، عراقی نوجوانوں کی کئی تنظیمیں سرگرم ہیں۔ ان کا کیا ہو گا۔۔ اس کا اندازہ لگانے میں اس خبر سے مدد مل سکتی ہے کہ ایرانی پراکسیز کے ترجمان ٹی وی چینل ’’صابرین‘‘ نے تا اطلاع ثانی اپنی نشریات بند کر دی ہیں۔
عراق کے سب سے طاقتور اور مقبول ترین سیاستدان مقتدیٰ صدر عراق میں امریکہ اور ایران، دونوں کی مداخلت کیخلاف ہیں اور ماضی میں ان کے حامیوں کی کئی بار ایرانی پراکسیز سے جھڑپیں بھی ہوتی رہی ہیں۔ عراق کا ایک چوتھائی سے زیادہ علاقہ عملاً بغداد کی عملداری میں نہیں رہا، وہاں کردستان کے نام سے ایک خودمختار ریاست بن چکی ہے تاہم اس ریاست کے نمائندے عراقی پارلیمنٹ کے بھی رکن ہیں۔
ایران کی سب سے بڑی پراکسی شمالی یمن کے حوثی ہیں۔ ابھی تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ حملے بند کرنے کی ایرانی ہدایت پر وہ عمل کریں گے یا بدستور آبی گزرگاہ پر حملے جاری رکھیں گے۔
______
دنیا میں ہر روز ، ان گنت عورتوں کو خرابی قسمت کی بنا پر عدّت کے مرحلے میں داخل ہونا پڑتا ہے لیکن تاریخ میں کوئی ’’عدّت‘‘ اتنی ’’المشہور‘‘ نہیں ہوئی جتنی وہ مدّت جس کے دوران نکاح ہوا۔ دنیا میں ہر روز لاکھوں نکاح ہوتے ہیں لیکن اتنا ’’المشہور‘‘ نکاح کوئی اور نہیں ہوا جتنا وہ نکاح جو عدّت کے دوران ہوا۔ ماہرین فقہ اور علما کا کہنا ہے کہ عدّت کے دوران ہونے والے نکاح کو نکاح نہیں کہا جا سکتا، اسے مداخلت فی العدّت اور نکاح کے ان دونوں واقعات کو ’’دنیا کے سو مشہور واقعات‘‘ نامی کتاب کے ناشر نے کتاب کے آئندہ ایڈیشن میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد کتاب کا نام بھی تبدیل کر کے ’’دنیا کے ایک سو دو مشہور واقعات‘‘ رکھ دیا جائے گا۔
گزشتہ روز عدّت میں نکاح یا مداخلت فی العدّت کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت تھا جس کے دوران دونوں شوہر یعنی سبکدوش کئے جانے والے شوہر اور حاضر سروس شوہر اور ان کے وکیلوں کے درمیان جھگڑا ہو گیا اور بات دراز دستی، دھینگامشتی اور دھول دھپّہ تک جا پہنچی۔ اگرچہ ’’ریسلنگ‘‘ کے یہ مناظر ٹی وی پر لائیو نہیں دکھائے گئے لیکن بعدازاں ٹی وی والوں نے اپنے پروگراموں میں اس کی جو لمحہ بہ لمحہ کمنٹری موثریہ ماضی کی ، اس نے ’’لائیو نشریات‘‘ جیسا ہی سماں باندھ دیا۔ تماشائیوں نے اسے ’’ورلڈ کپ‘‘ والے جوش و خروش سے دیکھا۔ تماشائیوں کے ایک حصے نے اسے عقیدت سے، دوسرے نے حیرت سے دیکھا۔ عقیدت اور حیرت کے اس مجموعے کو بعض احباب نے ’’عبرت‘‘ کا نام دیا ہے۔
______
مجاہدین آزادی کی مرشدانی کو حکومت نے 14 سال قید پانے کے بعد بجائے جیل خانے بھجوانے کے آزادی کی بڑی چھائونی بنی گالہ میں ’’ہائوس اریسٹ کر دیا ہے جس پر مجاہدین آزادی خوش ہیں کہ مرشدانی جیل جانے سے بچ گئیں اور اپنے گھر پر ہی رہیں گی۔ بے چارے مجاہدین آزادی یہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ ’’ہائوس اریسٹ‘‘ کے نام پر ان کی چھائونی غینم یعنی سرکار جس عظیم رہنما کے بارے میں شیخ آف چلّے شریف کہا کرتے تھے کہ قبر تک اس کا ساتھ دونگا کہ اصلی اور نسلی ہوں، اب انہی کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ اس نے 3 کروڑ روپے لے کر میرے مخالف امیدوار کو ٹکٹ دے دیا ہے۔
شیخ جی آپ کہاں تھے جب ٹکٹ نیلام ہو رہے تھے، چار کروڑ دے کر نیلامی آپ جیت لیتے، یوں مقابلے سے باہر تو نہ ہوتے۔ چار کروڑ آپ کیلئے کوئی بڑی رقم نہیں، بس اتنی ہی ہے جتنی ہم تنخواہ داروں کیلئے چالیس روپے مبلغ!
٭…٭…٭