صنعتکاروں کے ٹیکس مسائل حل کرنا اولین ترجیح ،چیف کمشنر امتیاز سولنگی

Feb 03, 2024

کراچی (کامرس رپورٹر) فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیف کمشنر ان لینڈ ریونیو، ایم ٹی او امتیاز علی سولنگی نے کہا ہے کہ تاجروں اور صنعتکاروں کے مسائل حل کرنے کیلئے ہمیشہ دروازے کھلے ہیں۔ صنعتکاروں کے ریفنڈز یا غیر ضروری نوٹس کے مسائل ذاتی طور پر سن کر حل کرنے کی کو شش کروں گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کورنگی ایسو سی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) میں صنعتکاروں سے ملاقات میں کیا۔ اس موقع پر کاٹی کے صدر جوہر علی قندھاری، ڈپٹی پیٹرن ان چیف زبیر چھایا، سینئر نائب صدر نگہت اعوان، نائب صدر مسلم محمدی، قائمہ کمیٹی کے چیئرمین طارق ملک، سابق صدر مسعود نقی، ایس ایم یحییٰ،سلیم الزماں، احتشام الدین،  ایف بی آرکی اسما ئآفتاب، حضور بخش لغاری، احمد علی مختار و دیگر بھی موجود تھے۔ چیف کمشنر امتیاز علی سولنگی نے مزید کہا کہ ود ہولڈنگ ایجنٹ کا قانون صرف پاکستان میں نہیں بلکہ خطے کے دیگر ممالک میں بھی ہے جس میں چین بھی شامل ہے۔ کوشش ہے کہ ایسے افراد جو بروقت ٹیکس ادا کرتے ہیں، ریکارڈ ٹھیک رکھتے ہیں انہیں غیر ضروری  نوٹس جاری نہ کئے جائیں۔ چیف کمشنر نے کہا کہ اتنا ڈیٹا موجود ہونا چاہیے جس پر ٹیکس نادہندہ کے خلاف قانونی کارروائی میں شواہد پیش کئے جاسکیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس اداکرنے والوں کی آگاہی بھی انتہائی ضروری ہے۔ فائلر اور نان فائلر کا فرق ختم کرنے کیلئے نئے ٹیکس پیئر کو شامل کرنا ضروری ہے۔ امتیاز علی سولنگی نے مزید کہا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 10 فیصد انتہائی کم ہے اسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کاٹی کے صنعتکاروں کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ اس سے قبل کاٹی کے صدر جوہر علی قندھاری نے کہا کہ  ٹیکس پالیسی کا تسلسل ضروری ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ٹیکس پالیسیاں بہت جلدی تبدیل ہوجاتی ہیں جس سے بزنس کمیونٹی کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔ صدر کاٹی نے کہا کہ لوگ ابھی کیو ایس سسٹم کو سمجھناشروع ہوئے تو حکومت نے ریڈار سسٹم متعارف کرانے کا عندیہ دیدیا۔ ملک میں براہ راست ٹیکس کی جگہ ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی بھرمار ہے،جس سے نہ صرف مہنگائی بلکہ افراط زر میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔  تاہم ٹیکس ریونیو بڑھانے کیلئے ضروری ہے کہ حکومت ٹیکسیشن ریفارمز کرے، لوگوں میں ٹیکس ادا کرنے کے فوائد اور طریقہ کار کی آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ جوہر علی قندھاری نے کہا کہ   آئی ٹی کے دور میں ٹیکس نظام کو جدید اور بین الاقوامی معیار سے ہم آہنگ کرنا چاہیے لیکن اس سلسلے میں ہونے والی تبدیلیوں پر لوگوں کو باقاعدہ تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ صدر کاٹی نے کہا کہ آئی آر ایس میں ڈیٹا موجود ہونے کے باوجود نوٹسسز ملنے سے صنعتکاروں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ پالیسی اور سسٹم میں تبدیلی سے پہلے بزنس سپورٹ اور تربیت و آگاہی پر خاص توجہ دینے ضروری ہے۔ تقریب سے ڈپٹی پیٹرن ان چیف زبیر چھایا نے کہا کہ ایف بی آر میں افرادی قوت کی کمی ہے۔ پالیسی سازی سے پہلے صنعتکاروں کی تجاویز بھی شامل کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ  ٹیکس دہندگان پر بھاری ٹیکسوں کی ادائیگی کا مزید بوجھ ڈالا جارہا ہے، دیگر ذرائع جہاں سے کئی گناہ ٹیکس وصول کیا جاسکتا ہے وہاں توجہ نہیں دی جاتی۔ تمام معلومات موجود ہیں جو لوگ شاہانہ اخراجات کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ان پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا اور فائلر نان فائلر کی تفریق کرکے انہیں مزید چھوٹ دیدی گئی ہے۔ زبیر چھایا نے کہا کہ خبر سنی تھی کہ ٹیکس نادہندگان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ ہوا  جس میں بجلی، گیس اور موبائل سمیں بند ہونے کے اعلانات ہوئے تھے۔ لیکن آج تک کسی کے خلاف ایک کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔قائمہ کمیٹی کے چیئرمین طارق ملک نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 10 فیصد ہے جو خطہ میں سب سے کم ہے، دیگر پڑوسی ممالک اس تناسب میں پاکستان سے بہت آگے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس امور کو نادرا اور بینکنگ سسٹم سے جوڑنا چاہییزرعی شعبے میں آڑھتی مڈل مین ہوتا ہے جو سب سے زیادہ منافع کمانے کے باوجود ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں۔محدود ٹیکس آمدن سے ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ اگر کوشش کی جائے تو ٹیکس آمدن میں کئی گنا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ تقریب سے نائب صدر مسلم محمدی، سابق صدر مسعود نقی اور احتشام الدین نے بھی خطاب کیا۔

مزیدخبریں