زرداری کی مجبوری اور اقتدار الیکشن ہے بد قسمتی سے زرداری کی پارٹی پی پی پی کی روایت بھی اقتدار پرستی رہی ہے۔پی پی پی الیکشن جیتے یا ہارے،اقتدار سے دوری ناقابلِ قبول رہتی ہے لہٰذا یہ جونیجو اور پرویز مشرف کے دور میں بظاہرحزب اختلاف میں تھی مگر فی الحقیقت مذکورہ ادوار میں بھی انہی کے فکروعمل کا راج رہا۔ پی پی پی کا طرز سیاست احتجاجی ہے لہٰذا یہ اقتدار میں رہ کر بھی احتجاجی سیاست نہیں چھوڑتے اور یہی سبب ہے کہ ان کے دور میں کسی کی سنی نہیں جاتی ،زرداری کی اقتدار پرستی اور الیکشن دوہری مجبوری ہے۔زرداری صدارت پاکستان سے استعفیٰ دیں تو جیل جاتے ہیں اوراگر پی پی پی کی سربراہی چھوڑتے ہیں تو پی پی پی کا دوبارہ برسر اقتدار پاکستان کی صدارت اور وزارت عظمیٰ آنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے لہٰذا زرداری کی سیاست بھوکے شیر پر سوار جیسی ہے۔اگر سوار اترتا ہے تو بھوکا شیر کھا جائیگا اور اگر سواری جاری رہتی ہے تو بھوکا شیر بے دم ہوکر مرتا ہے۔لہٰذا زرداری کا جانا آسان نہیں۔علاوہ ازیں عالمی اتحادی ممالک نے شیر کی لگام زرداری کو تھما رکھی ہے اور زرداری کا متبادل کوئی نہیں۔زرداری سب پہ بھاری ایسی حقیقت ہے جس کا انکار حقیقت پسندی نہیں۔
الیکشن زرداری کی مجبوری ہے یہ چند ماہ کی تاخیر یا التواءکے باوجود ہوکر رہے گا۔زرداری کی حقیقی اپوزیشن اور مدّمقابل شریف برادران ہیں۔شریف برادران کو زرداری کی پٹاری میں رکھنے کیلئے ڈرامائی حیلے اور حربے کرنا ضروری ہے۔پہلا حیلہ الیکشن کے التوا اور تاخیر کی باتیں کرنا ہے تاکہ شریف برادران کا زور الیکشن کی حتمی تاریخ کا مطالبہ کرنے پر لگا رہے۔تبدیلی اور انقلاب کے نام پر الطاف حسین،ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کوہلّہ شیری دینا ہے۔نیز یہ حربے شریف برادران کے ووٹ بینک کو منقسم کرنے کیلئے بھی ضروری ہیں۔الیکشن میں زرداری کے دو اہداف ہیں۔پہلا ہدف وفاق میں کمزور اور مخلوط زرداری اور پی پی پی نواز حکومت بنانا ہے جبکہ دوسرا صرف پنجاب ہتھیانا ہے جس کیلئے ضروری ہے کہ پنجاب میں غیر شریف یعنی شریف برادران کی فیملی کے بغیر حکومت بنائی جائے۔اس ضمن میں پنجاب کے بدلے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کا جھانسہ بھی دیا جاتا ہے۔گو نوازشریف نے زرداری کی صدارت میں وزارت عظمیٰ قبول کرنے کا اظہار بھی کر رکھا ہے مگر زرداری کیلئے نواز شریف جیسی مقبول اور طاقتور شخصیت کو وزیراعظم بنانا ’آبیل مجھے مار‘ کے مترادف ہے،زرداری کی پالیسی مسلم لیگ ن میں موجود کسی ”پسندیدہ شخصیت“ کو چُن کر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بنانا ہے۔زرداری کا تیسرا حربہ شریف برادران کو فوجی انقلاب/آمریت کا خوف دلانا ہے۔ شریف برادران جنرل پرویز مشرف کے ڈسے ہوئے ہیں جبکہ پاک افواج زرداری کے ماتحت ہیں۔اگر فوج نے آنا ہوتا تو زرداری دور میں کئی مقام ایسے آئے تھے کہ فوج اقتدار سنبھالتی اور عوام استقبال کرتے۔ فوجی انقلاب کا ہوّا شریف برادران کو ”زرداری مفاہتمی پٹاری“ میں رکھنے کا حربہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ زرداری کی فوج سے مفاہمت ہے مگر زرداری کو شریف برادران کی فوج سے مفاہمت قبول نہیں۔ درایں تناظر زرداری نے شریف برادران کو جمہوری تسلسل کا لارا یا لوری دیکر اپنا دم چھلّا بنا رکھا ہے۔زرداری الیکشن کے بغیر زیادہ دیر اقتدار میں نہیں رہ سکتے ۔لہٰذا زرداری کیلئے ضروری ہے کہ وہ شریف برادران کو پچھلے الیکشن فروری 2008 کی طرح اپنا بنا کر رکھیں اور یہ کام شریف برادران کو فوجی خوف دلائے بغیر ناممکن ہے لہٰذا جمہوریت کے مزے زرداری،بلاول اور پی پی پی کے جبکہ جمہوریت کی حفاظت رکھوالی اور چوکیداری شریف برادران کی ذمہ داری بنا رکھی ہے۔
ملک میں جمہوری نظام کے تسلسل کیلئے الیکشن ناگزیر ہیں لہٰذا زرداری اور پی پی پی کا مفاد بروقت یا تھوڑی بہت تاخیر کے ساتھ الیکشن کا انعقاد ہے جبکہ دوسرا ہدف متفقہ چیف الیکشن کمشنر کی طرح متفقہ نگران حکومت کا قیام ہے۔اگر الیکشن ہوتے ہیں تو یہ زرداری کی صدارت اور متفقہ نگران عبوری حکومت کے دور میں ہوں گے اور یہی زرداری اور پی پی پی کی پہلی کامیابی ہے۔زرداری کی دوسری بڑی کامیابی اپنی صدارت کے زیر سایہ اگلی منتخب حکومت قائم کرنا ہے۔زرداری کی تیسری بڑی کامیابی نظام یا حکومت کی نا م نہاد تبدیلی کے نام پر اپنے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ حلیف سیاستکاروں کو پنجاب کے سیاسی میدان میں اتارنا ہے جو شریف برادران کا ووٹ بکھیر دیں اور اس طرح وفاقی پارلیمان اور اسمبلی میں کوئی سیاسی پارٹی بھاری یا کسی حد تک واضح اکثریتی پارٹی بنکر نہ ابھرے جبکہ سینٹ میں پی پی پی کیلئے بھی اکثریت ہے۔ درایں صورت زرداری اور پی پی پی کیلئے کمزور اور مخلوط منتخب نمائندوں کا وزیراعظم سنبھالنا آسان ہوگا۔زرداری کی پہلی ضرورت اگلی منتخب پارلیمان سے اپنا اگلا دور صدارت یقینی بنانا ہے جبکہ زرداری اپنے موجودہ دور صدارت میں اگلے نئے آرمی چیف اور چیف جسٹس کی نامزدگی بھی کریں گے ۔الیکشن کا بروقت ہونا شریف برادران سے زیادہ زرداری اور پی پی پی کی ضرورت اور مجبوری ہے۔لہٰذا شریف برادران کواگلے الیکشن میں پنجاب سنبھالنے اور زیادہ سے زیادہ قومی اسمبلی کی نشستیں یقینی بنانے کیلئے ہر ممکن کوشش کرنا چاہئے۔اگر شریف اور چودھری برادران متحدہ انتخابی محاذ بنالیں تو زرداری اور پی پی پی کیلئے اس سے بڑا انتخابی اور سیاسی نقصان کوئی اور نہیں ہوگا....
یہ ہماری دشمن آشنائی یا تمہاری دوست نا شناسی
بڑی بڑی مشکلات بن کر کھڑی ہیں باتیں ذرا ذرا سی