”سیاست کے بغیر ریاست“ مگر کیسے؟

ملکی نظم و نسق چلانے کا نام اگر سیاست ہے تو ہمارے آقا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کائنات کے عظیم ترین سیاستدان تھے۔ پھر آپ کی پیروی و اطاعت میں خلفائے راشدین نے جس شاندار طریقے سے سیاست کی اسکی مثال پوری دنیا کی تاریخ میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ دور کیوں جایئے محمد علی جناح نے بھی آپ کی ذات مقدسہ و تعلیمات کی راہنمائی میں ہی وطن عزیز پاکستان کو 27 رمضان المبارک کو حاصل کیا۔ لہٰذا سیاست و ریاست دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اگر سیاست نہیں ہو گی تو ریاست کیسے چلے گی بہرحال جناب طاہر القادری صاحب کا یہ نعرہ کہ ”سیاست نہیں .... ریاست بچا¶“ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ بلاشبہ طاہر القادری ایک اعلیٰ درجے کے عالم دین‘ مقرر ہونے کے علاوہ اب تو ماشاءاللہ ظاہری دولت سے بھی مالامال ہیں۔ ہمیں بخوبی یاد ہے کہ ہمارے کالج کے زمانے میں اس وقت ہفتہ میں غالباً ایک دن P.T.V پر جناب کی تقریر نشر کی جاتی تھی۔ چونکہ آپ عشق رسول کے موضوع کو نہایت ہی خوبصورت انداز میں پیش کرتے لہٰذا ہم پورا ہفتہ جناب کی تقریر سننے کیلئے بے تاب رہتے آپ خود عاشق رسول ہونے کے بھی دعویدار ہیں مگر آج کل قادری صاحب چونکہ کینیڈا کے شہری ہیں۔ چند ماہ قبل جب ایک امریکی جہنمی پروڈیوسر نے خالق کائنات کے محبوب اور ہمارے آقا خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں انتہائی گستاخانہ فلم بنائی تو بشمول پاکستان تمام دنیا کے مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی تھی۔ پاکستان میں بھی جلوس نکالے گئے احتجاج کیا گیا مگر حکومت پاکستان نے محض ایک دن کو ”یوم عشقِ رسول“ قرار دے کر چھٹی کرنا ہی مناسب سمجھا۔ ایک دن کیا مسلمان کی زندگی کا تو ایک ایک لمحہ ایک ایک سانس ہی آپ کے عشق و محبت سے لبریز ہے اگر ایسا نہیں ہے تو وہ مسلمان ہونے کے دعوے میں ہی سچا نہیں ہے ۔
اس وقت حکومتی سطح پر جب گستاخانہ فلم کے بارے امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کی گئی تھی اس وقت اگر ڈاکٹر طاہر القادری فوراً پاکستان تشریف لے آتے اور مینار پاکستان میں ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کرتے اور حکومت وقت کو یہ احساس دلاتے کہ ہمارے آقا کی شان اقدس میں ایسی گستاخی اور آپ کا کردار کیا ہے؟ پھر آپ فرماتے کہ میں حکومت وقت کو اتنی مہلت دیتا ہوں کہ امریکیوں کو حکومتی سطح پر احساس دلا¶ وہ اپنے ملک میں اس بدبخت ملعون کے خلاف مقدمہ چلائیں اور اسلام آباد کو دھمکی دیتے کہ اگر فلاں دن تک ایسا نہ ہوا تو میں چالیس لاکھ نہیں بلکہ اٹھارہ کروڑ عوام کے ساتھ مارچ کروں گا تو یقیناً حکومت بھی امریکہ سے بات کرنے پر مجبور ہوتی اور ”عاشقِ رسول“ ڈاکٹر طاہر القادری بھی ایک عالم دین ہونے کا احسن کردار ادا کرتے۔ بہرحال اس وقت جناب خود بھی کینیڈا ہی میں تشریف فرما تھے لہٰذا انہوں نے ”خاموشی“ کو ہی مناسب سمجھا ہو گا۔ اب جبکہ الیکشن ہونیوالے ہیں اچانک قادری صاحب کا میدان میں آ کر اسلام آباد کو للکارنا ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہمارے ہاں یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ معمول ہے جب دولت کسی کے پاس حد سے زیادہ آ جائے تو پھر وہ اقتدار کے خواب بھی دیکھنے لگتا ہے۔ بجائے یہ کہ مذکورہ اہل ثروت اپنی دولت کو اللہ کی راہ میں خرچ کریں اور دنیا و آخرت میں کامیابیاں حاصل کریں۔ وہ ”اپنی ساکھ بچا¶ کی بجائے ملک بچا¶“ کے نعرے کے ساتھ میدان میں اتر آتے ہیں۔ سب پر عیاں ہے کہ محترمہ کو جب قتل کر دیا گیا تو جناب زرداری صاحب بھی ”اقتدار کھپے“ کے بجائے ”پاکستان کھپے“ کا نعرہ لے کر صاحب اقتدار ہوئے تھے۔ ”ملک بچا¶‘ پاکستان کھپے‘ ریاست بچا¶“ جیسے نعرے معلوم نہیں کیوں اور کس کے کہنے پر لگائے جاتے ہیں۔ حالانکہ پاکستان ہی پوری دنیا میں ایک واحد ایسا ملک ہے جس کی بنیاد ہی کلمہ طیبہ پر رکھی گئی تھی لہٰذا اس کی حفاظت تو خود اللہ تعالیٰ فرمانے والا ہے اور یہ تاقیامت دنیا کے نقشے پر قائم و دائم رہے گا۔
جناب ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کا ایم کیو ایم اور عوامی تحریک کو ”دو جسم اور ایک روح“ قرار دینا بھی کوئی خلاف توقع نہیں ہے۔ ظاہر ہے دونوں صاحبان آج کل یورپ کی ریل میں سوار ہیں۔ مگر کیا ہی اچھا ہوتا اگر جناب قادری صاحب الطاف حسین صاحب کو بھی ساتھ ہی لے آتے۔ بہرحال یار لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ قادری صاحب کا آناً فاناً الیکشن کے دنوں میں آ کر ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر ”ڈرون گرانا“ یہ کوئی سازش بھی ہو سکتی ہے کہ کسی طرح الیکشن ملتوی کرائے جائیں۔ کیونکہ ہمارے ہاں ”سیاست“ میں اصول‘ حب الوطنی‘ ایمانداری‘ دیانتداری‘ فرض شناسی کے سوا سب کچھ ممکن ہے۔ ایک وقت تھا کہ جب ذوالفقار مرزا ایم کیو ایم کے خلاف قرآن پاک سر پر اٹھا کر بولتے پھر لندن میں ملاقاتیں ہوئیں بعد میں ”مرزا“ ایسے خاموش ہوئے کہ ان کی آواز بھی سننے کو نہیں ملتی۔ بہرحال ایم کیو ایم اس وقت حکومت کی اتحادی جماعت ہے۔ ان کو ساتھ ملا کر قادری صاحب کا ایسے جارحانہ انداز میں میدان میں آنا دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ آئین کی پاسداری اور حکومت سے آئین پر عملدرآمد کرانے کے دعویدار جناب قادری صاحب کا یہ ”انداز“ خود غیر آئینی نہیں ہے؟ آئینی طریقہ تو یہ ہے کہ الیکشن سر پر ہیں قادری صاحب بھی میدان سیاست میں اتریں۔ بھاری مینڈیٹ سے جیت کر اقتدار میں آئیں اور ”گند“ کو آئینی طریقے سے صاف کریں۔

ای پیپر دی نیشن