وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف نے منڈی بہاﺅالدین میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ملک کی دولت لوٹنے والے الیکشن ملتوی کرانا چاہتے ہیں۔ عوام ان کا راستہ روکیں جو کسی اور کا ایجنڈا لائے ہیں۔ انتخابات ملتوی کرانے کے لئے امپورٹڈ لوگوں کو سامنے لایا جارہا ہے۔ فوج عوام کی سپہ سالار ہے غیرقانونی بات کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ پاک فوج ہر حال میں سرحدوں کی حفاظت اور آئین کی پاسداری کرے گی۔ وطن عزیز کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عوام کی طاقت سے معرض وجود میں آنے والی جمہوری حکومت اپنے اقتدار کے پانچ سال پورے کرکے جارہی ہے تو ہرطرف ایک بھونچال سا ہے۔ منہاج القرآن کے امیر طاہرالقادری کی اچانک وطن عزیز آمد اور مینارپاکستان کے سائے تلے ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کے دوران کئے جانے والے اعلانات نے سیاسی سرگرمیوں کو ایک نیا رخ دے دیا ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں جو انتخابات کی آمد کے حوالے سے سیاسی سرگرمیوں کا نقطہ آغاز کر چکی تھیں وہ طاہرالقادری کی منطق، سوچ اور فلسفے کو نہ صرف سمجھنے میں سرگرداں ہو چکی ہیں بلکہ وہ یہ بھی پرکھ رہے ہیں کہ آخر کہیں ان کے پس پردہ کوئی ایسے ہاتھ کارفرما تو نہیں جو ٹیکنوکریٹ سٹائل کی حکومت کے لئے راہ ہموار کرنا چاہتے ہوں یا پھر ملک میں ایک مرتبہ پھر جمہوریت کا بوریا بسترا گول کر کے فوجی آمریت مسلط کر دی جائے۔ اس وقت ملک میں جو سیاسی حالات و واقعات منظرعام پر نمودار ہیں ان کو مدنظر رکھ کر واضح طور پر کہا جا سکتا ہے کہ فوج قطعی طور پر اقتدار میں آنا پسند نہیں کرے گی۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی چند ماہ قبل واضح بھی کر چکے ہیں کہ ماضی میں سرزد ہونے والی غلطیوں کو دوبارہ نہیں دوہرایا جائے گا اور کسی ایک فرد کی غلطی کو پورے ادارے یا شعبے کے ساتھ نتھی نہ کیا جائے۔ سابق صدر اور آمر جنرل(ر) پرویزمشرف نے 1999ءمیں جب اس وقت کے منتخب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹا تھا اور وہ اقتدار کے منصب پر بزور طاقت فائز ہو گئے تھے اس وقت انہوں نے ملک سے کرپشن کے خاتمے کا اعلان کیا تھا اور تمام سیاسی حلقے اس امر پر متفق ہیں کہ میاں محمد نوازشریف نے امریکہ کی طرف سے بار بار کی دھمکیوں کے باوجود ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کو اس کی طرف سے کئے جانے والے ایٹمی دھماکوں کا منہ توڑ جواب دے کر پاکستان کو دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی مملکت ہونے کا اعلان کر دیا تھا لہٰذا امریکہ بہادر نے انہیں مزا چکھانے کے لئے پرویزمشرف کو اپنے مجاہد کے طور پر تیار کیا اور انہوں نے ایک جمہوری حکومت کا غیرآئینی طور پر تختہ دھڑن کر دیا۔ ان دنوں پیپلزپارٹی اپنے اتحادیوں کے ساتھ وفاق میں حکومت کر رہی ہے۔ آئندہ چند ماہ میں پیپلزپارٹی اپنے اقتدار کے پانچ سال پورے کر لے گی۔ وطن عزیز کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بہت مضبوط الیکشن کمشنر متفقہ طور پر سامنے آئے ہیں اور الیکشن کمشنر جسٹس(ر) فخرالدین جی ابراہیم کی طرف سے جو ضابطہ اخلاق جاری کیا گیا ہے وہ بھی جینے کاحق چھین رہی ہے اور قوی امکان ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں عوام کی اکثریت حکومتی دعوﺅں کے باوجود زرداری حکمرانوں کے خلاف اپنے ووٹ کی طاقت کا کثرت سے استعمال کریں گے۔ ایسے حالات میں قبلہ طاہرالقادری کا اچانک نمودار ہونا اور ایسے لائحہ عمل اور تراکیب پیش کرنا جس کی کوئی منطق نظر نہیں آتی اور نہ ہی سمجھ میں آتا ہے کہ آخر یہ سب کرنا خود قبلہ کی سمجھ میں بھی ہے یا نہیں۔ 14جنوری کو اسلام آباد جا کر آخر انہوں نے کیا حاصل کرنا ہے۔ ایم کیو ایم منہاج القرآن کی مکمل حمایت کر رہی ہے۔ نائن زیرو پر گذشتہ روز جب قبلہ طاہرالقادری نے خطاب کیا تو ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے بھی نہ رہا گیا اور انہوں نے بھی اپنی روایت کے مطابق ٹیلیفونک خطاب کر ڈالا۔ ایم کیو ایم کا منہاج القرآن کی حمایت کرنے پر کسی قسم کے تبصرے سے بہتر ہے کہ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے اس بیان کو ہی کوٹ کر لیا جائے کہ جس میں انہوں نے بھی تعجب کا اظہار کیا ہے کہ ایک طرف ایم کیو ایم حکومتی اتحادی ہے اور دوسری طرف وہ منہاج القرآن کے طاہرالقادری کی حمایت کر رہے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی نے مسلم لیگ(ق) کے بارے میں اسی تعجب کا اظہار کیا۔ عوام کی طرف سے بھی اسی قسم کے تعجب اور تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اب سمجھنے کی ضرور ہے کہ آخر کوئی نادیدہ قوتیں وطن عزیز کو کسی غیرمبہم اور غیرمعنی راستوں پر لے جانا چاہتی ہیں یا پھر ایک مرتبہ پھر جمہوریت کا بوریا بسترا گول کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ ایم کیو ایم پر تنقید کرنا کوئی آسان بات نہیں مگر یہ کیا ہے کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے ایک مرتبہ پھر کہاہے کہ ماضی میں فوج نے اپنی مرضی سے کئی مرتبہ مارشل لاءلگائے۔ اب مسلح افواج وطن عزیز کو بچانے کے لئے انقلاب کاساتھ دے۔ اگر ہم غلط نہیں تو کیا لندن سے بیٹھ کر الطاف حسین فوج کو جمہوریت کا بوریا بسترا گول کرنے کی دعوت نہیں دے رہے اور جس وقت وہ یہ دعوت دے رہے تھے افسوس انتہائی خوبصورت شخصیت قبلہ طاہرالقادری بھی نائن زیرو میں اسی جلسہ میں موجود تھے۔ ایک طرف طاہرالقادری نے رب ذوالجلال کی قسم کھا کر کہا ہے کہ ان کے پیچھے کوئی ہاتھ کارفرما نہیں اور دوسری طرف ان کی حمایت ایم کیو ایم کر رہی ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد فوج کو کھلے عام دعوت دے رہے ہیں اور وہ ایم کیو ایم کا شکریہ ادا کرتے رہے۔ وطن عزیز حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں بغیر کسی مسلح جدوجہد کے معرض وجود میں آیا تھا۔ کسی بھی جگہ پر اپنا ایجنڈا مسلط کرنے کے لئے اسلحے کا استعمال نہیں کیا گیاتھا۔ آج کے پاکستان میں کراچی کے اندر ایسا کیوں ہوتا ہے اور کیوں طاہرالقادری ان طاقتوں کے ساتھ مل کر ملک میں انقلاب لانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ(ق) کاتو کوئی نظریہ نظر ہی نہیں آتا۔ طاہرالقادری نے بھی اپنے نظریات کو ان کے ہمراہ ہو کر دفن کر دیا۔ شاید ان سب کو اس مرتبہ اپنی سوچ میں ناکامی ہو۔ مشرف نے کراچی میں اپنی طاقت دکھانے کا اعلان کیا تھا مگر اب اسٹیبلشمنٹ اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہونے کو تیار نہیں اور امریکہ بہادر بھی تو ایسا نہیں چاہتا۔ لگتا ہے جلد ہی ملک میں نگران حکومتی سیٹ اپ کے لئے راہیں ہموار ہو جائیں گی۔ طاہرالقادری ایم کیو ایم اور ق لیگ نے بے مبہم باتیں اور اشارے دے کر جمہوریت کو زچ کرنے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ پیپلزپارٹی نے پونے پانچ سالوں تک تو عوام کو مایوس کیا ہے مگر نائن زیرو پر طاہرالقادری کی موجودگی میں الطاف حسین کے خطاب کے دوران پیپلزپارٹی کا سندھ کے بلدیاتی نظام پر غور کرنے کااعلان ایک اچھی سیاسی چال ہے۔ انتخابات ہر حال میں ہونے چاہئیں اور جمہوریت مضبوط کی جانی چاہیے نہ کہ ایسے فلسفے کا ہمراہی بنا جائے جس کی راہ تو قبلہ طاہرالقادری متعین کر رہے ہیں مگر منزل کا خود انہیں علم نہیں شاید ایم کیو ایم کے قائد یا ق لیگ کے چوہدریوں کو ہو۔
قبلہ طاہرالقادری۔۔۔ عوام کیا سوچیں!
Jan 03, 2013