الطاف حسین اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی افواج پاکستان کو انقلاب کا ساتھ دینے کی دعوت....یہ انتخابی اصلاحات کا ایجنڈہ ہے یا دوبارہ ماورائے آئین اقدام کی سازش؟


تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کینیڈین نے کہا ہے کہ 14 جنوری کو عوامی پارلیمنٹ اپنا فیصلہ سنا دیگی‘ اسلام آباد اس روز دنیا کا سب سے بڑا تحریر سکوائر بننے جا رہا ہے‘ مگر یہ پرامن تحریر سکوائر ہو گا جس میں کوئی تشدد ہوگا‘ نہ گولی چلے گی۔ گزشتہ روز نائن زیرو کراچی پر متحدہ قومی موومنٹ کے زیر اہتمام منعقدہ ایک جلسہ عام میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ حلفیہ کہہ چکے ہیں کہ ہمارا کوئی خفیہ ایجنڈہ نہیں اور نہ ہی ہم کسی کے ایجنڈے پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمارا ایجنڈہ جمہوریت کا قیام اور جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ہے۔ ہم ملک میں آئین کی بحالی چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انکی تحریک کا مقصد نگران وزیراعظم بننا نہیں اور نہ ہی وہ اس عہدے کے امیدوار ہیں۔ وہ لٹیروں سے جمہوریت چھین کر غریبوں کے ہاتھوں میں اقتدار دینا چاہتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین مقیم لندن نے اس پبلک جلسے میں ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 14 جنوری کو عوامی پارلیمنٹ میں فیصلہ ہو گا اور یہ سفر انقلاب کی منزل تک پہنچ کر ختم ہو گا۔ دنیا کی کوئی طاقت انقلاب لانے سے نہیں روک سکتی۔ فوج اور قومی سلامتی کے ادارے انقلاب میں رکاوٹ بننے کے بجائے اس کا ساتھ دیں اور اسمبلیوں کو کرپٹ لوگوں سے پاک کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ فوج نے ملک میں کئی مارشل لاءلگائے‘ اب فوج پاکستان کو بچانے کیلئے انقلاب کا ساتھ دے۔ ہم ملک میں جاگیردارانہ نظام‘ وڈیرہ شاہی اور موروثی سیاست کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ انکے بقول 14 جنوری کا لانگ مارچ انتخابات ملتوی کرانے کیلئے نہیں کیا جا رہا‘ ہمارا یہ مارچ حکومت نہیں‘ نظام کی تبدیلی کیلئے ہے جس کیلئے دو مظلوم جماعتوں نے بیڑہ اٹھایا ہے۔
اگرچہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور الطاف حسین دونوں کا دعویٰ ہے کہ لانگ مارچ کا مقصد انتخابات ملتوی کرانا نہیں تاہم جب انتخابات سے پہلے انتخابی اصلاحات لانے اور سسٹم کی تبدیلی کی بات کی جائیگی تو یہ مقصد مقررہ آئینی میعاد کے اندر منعقد ہونیوالے انتخابات کو مو¿خر کراکے ہی حاصل کیا جا سکے گا۔ اسی بنیاد پر حکمران پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ڈاکٹر طاہرالقادری کی انتخابی مراحل کے آغاز ہی میں کینیڈا سے اپنے پیدائشی ملک واپسی اور انتخابی اصلاحات کیلئے لانگ مارچ کے اعلان کو کسی مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کیلئے کی جانیوالی سازش سے تعبیر کیا جا رہا ہے اور تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز اسی پس منظر میں صدر آصف علی زرداری‘ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں اپنی ہنگامی ملاقات کے دوران طے کیا کہ کسی کو سسٹم ڈی ریل کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی جبکہ قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر چودھری نثار علی خان حکومتی اتحادیوں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ق) کی جانب سے ڈاکٹر طاہرالقادری کے ایجنڈے کی حمایت کو مزاحیہ ڈرامہ قرار دیکر باور کرا رہے ہیں کہ اب سیاسی نظام میں ”بچہ سقہ“ کی کوئی گنجائش نہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات قمرالزمان کائرہ نے بھی اعلان کیا ہے کہ اسلام آباد کو کسی کے ہاتھوں تحریک سکوائر نہیں بننے دیا جائیگا جبکہ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی حکومتی اتحادی ایم کیو ایم سے استفسار کر رہے ہیں کہ وہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ایجنڈے کا ساتھ دے کر کس کیخلاف مارچ کر رہی ہے؟ اسی طرح وزیر داخلہ رحمان ملک ڈاکٹر طاہرالقادری سے تقاضا کر رہے ہیں کہ وہ فاٹا یا وزیرستان میں جاکر لانگ مارچ کریں۔
اس وقت جبکہ موجودہ اسمبلیوں کی میعاد پوری ہونے میں صرف اڑھائی ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے اور آئندہ انتخابات کیلئے کسی وقت بھی نگران سیٹ اپ کی تشکیل ہو سکتی ہے جبکہ الیکشن کمیشن نے بھی متعدد انتخابی اصلاحات کو روشناس کراکے مقررہ وقت کے اندر منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انتظامات مکمل کرلئے ہیں‘ عین اس موقع پر انتخابی اصلاحات کا ایجنڈہ لا کر اسلام آباد لانگ مارچ کی کال دینا اور پھر حکومتی اتحادیوں کی جانب سے اس ایجنڈے کی حمایت کرنا بادی النظر میں قوم کو آئندہ انتخابات سے دور لے جانے اور انتخابی اصلاحات کے نام پر کوئی طویل مدتی نگران سیٹ اپ تشکیل دلانے کی سازش معلوم ہوتی ہے جس کیلئے ڈاکٹر طاہرالقادری پہلے ہی عندیہ دے چکے ہیں کہ انہیں نگران سیٹ اپ کیلئے کوئی کردار سونپا گیا تو وہ انکار نہیں کرینگے۔ اگرچہ اب وہ پینترا بدلتے ہوئے یہ بھی باور کرا رہے ہیں کہ وہ نگران وزیراعظم بننا چاہتے ہیں‘ نہ اس عہدے کے امیدوار ہیں تاہم جب عبوری سیٹ اپ میں انکے کردار کی بات ہو گی تو وہ نگران وزیراعظم سے کم کے کسی کردار پر تو آمادہ نہیں ہونگے جبکہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور الطاف حسین دونوں کی جانب سے فوج کو موجودہ نظام سے عوام کو خلاصی دلانے کیلئے کردار ادا کرنے کی کھلے عام دعوت دینا بھی سسٹم کیخلاف کسی سازش کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ اپنی جگہ تلخ حقیقت ہے کہ موجودہ منتخب حکمرانوں کے ماتحت چلنے والے نظام نے عوام کو کسی قسم کا ریلیف دینے کے بجائے ان کیلئے مسائل ہی پیدا کئے ہیں اور اس دور میں روٹی روزگار اور توانائی کے بحران میں الجھے عوام عملاً زندہ درگور ہوگئے ہیں‘ جبکہ موجودہ نظام میں موروثی سیاست‘ جاگیردارانہ نظام اور وڈیرہ شاہی والی تمام قباحتیں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں‘ تاہم اس سے یہ مراد نہیں کہ ان قباحتوں کو دور کرنے کے نام پر پورے نظام کی بساط لپیٹ دی جائے اور ملک میں دوبارہ آمرانہ نظام کو مسلط کرنے کی راہ ہموار کی جائے۔ ماضی میں ہر طالع آزما جرنیل احتساب کا نعرہ لگا کر ہی اپنی جرنیلی آمریت مسلط کرتا رہا ہے۔ مسلح افواج نے اب تک جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے نادر مواقع ملنے کے باوجود اس سے گریز کیا اور خود کو اپنی پیشہ ورانہ آئینی ذمہ داریوں تک محدود ررکھا۔ موجودہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی میں پانچویں سال میں بھی ثابت قدم رہے ہیں جنہوں نے عملاً جمہوری نظام کو تحفظ فراہم کیا ہے‘ اس لئے اس موقع پر جبکہ منتخب جمہوری نظام کے تابع موجودہ اسمبلیاں اپنی آئینی میعاد پوری کر رہی ہیں‘ ڈاکٹر طاہرالقادری اور الطاف حسین کی جانب سے افواج پاکستان کو موجودہ نظام سے عوام کو خلاصی دلانے کیلئے کردار ادا کرنے کی دعوت دینا‘ طالع آزما جرنیلوں کے ماورائے آئین اقتدار کا راستہ دوبارہ ہموار کرنے کی سازش ہی قرار دی جا سکتی ہے جبکہ انتخابی عمل کے تسلسل سے جمہوری نظام میں موجود وہ قباحتیں ختم ہو سکتی ہیں جن کی ڈاکٹر طاہرالقادری اور الطاف حسین نشاندہی کر رہے ہیں۔ افواج پاکستان کو کسی سیاسی ایجنڈے کا ساتھ دینے کی دعوت بذات خود غیرآئینی ہے اس لئے انتخابی اصلاحات سے متعلق آئینی شقوں کی پاسداری کا تقاضا کرنیوالے ڈاکٹر طاہرالقادری کو خود بھی تو آئین کی پاسداری کرنی چاہیے اور کسی ماورائے آئین اقدام کا تقاضا نہیں کرنا چاہیے۔
اس صورتحال میں عوام کو بھی سسٹم کی اصلاح کے نام پر کسی اور ایجنڈے کی تکمیل کی سازشوں سے ہوشیار رہنا چاہیے اور کسی ٹریپ میں آکر شب خون مارنے کے متمنی غیرجمہوری عناصر کا راستہ صاف نہیں کرنا چاہیے۔ ملک میں امن و امان کی صورتحال پہلے ہی سنگین ہو چکی ہے اس لئے اپنے مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کی خاطر عوام کو سڑکوں پر لانا ملک کو مزید بدامنی کی جانب دھکیلنے کے مترادف ہو گا۔ افواج پاکستان کو امن و امان کنٹرول کرنے میں بہرصورت حکومت کی معاونت کرنی چاہیے جو انکی آئینی ذمہ داری بھی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...