میں نے ملالہ کے بارے میں ایک کالم تو لکھا تھا پھر نہ لکھا۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ کیا لکھنا تھا۔ چھوٹی سی بچی کو متنازعہ بنا دیا گیا۔ بچے تو محبوب ہوتے ہیں، میں انہیں جنت کا باشندہ سمجھتا ہوں مگر بڑے اس دنیا کو دوزخ بنا رہے ہیں۔ ملالہ کو ہر کسی نے اپنے اپنے مقصد کیلئے استعمال کیا اس میں ہماری حکومت اور امریکی یورپی حکومت بھی شامل ہے۔
ملالہ کا ایک بیان نظر سے گزرا ہے۔ لگتا ہے کہ یہ بھی اس کے والد نے دیا ہو گا۔ بھارت میں ایک لڑکی اوباش اور عیاش لوگوں کی زیادتی کے بعد سنگاپور کے ایک ہسپتال میں مر گئی، پورے بھارت میںآگ لگی ہوئی ہے۔ مظاہرے اور جلاﺅ گھیراﺅ۔ شاید ملالہ نے الیکٹرانک میڈیا یا پرنٹ میڈیا کے حوالے سے یہ ظالمانہ خبر دیکھی ہو۔ ملالہ کی طرف سے بیان کیا گیا ہے کہ وہ بھارت میں اس زیادتی کی مذمت کرتی ہے۔ بھارتی اخبار میں شائع ہو گیا ہے کہ ملالہ نے اس خبر کے حوالے سے بھارتی معاشرے پر تنقید کی ہے۔ یہ ظلم اور بے انصافی صرف پاکستان میں نہیں ہوتی۔ وہاں بھی حکومت اور پولیس ظالموں کا ساتھ دیتی ہے۔ مظاہروں وغیرہ کی پرواہ نہیں کی جاتی۔ شبانہ اعظمی، ہیما مالنی اور کئی اداکاروں نے بھی مظاہرے میں شرکت کی ہے۔ یہ خبر ملالہ کے والد نے دیکھ لی ہو گی اس نے ایک تردیدی بیان جاری کر دیا ہے کہ ملالہ نے ایسی کوئی تنقید مظلوم لڑکی کے حوالے سے نہیں کی، مجھے دکھ ہوا۔ ملالہ کے ساتھ زیادتی ہوئی تو پوری دنیا نے اس کے خلاف احتجاج کیا ہے جس میں بھارت بھی شامل ہو گا اور اس حوالے سے پاکستان پر بھی تنقید ہوئی۔ اس تنقید کا کوئی اثر کچھ پاکستانیوں پر بالکل نہیں ہوتا، وہ خود بھی یہ تنقید اپنے وطن پر کرتے رہتے ہیں۔ ملالہ کے والد سے بھارت پر جائز تنقید کا دکھ برداشت نہ ہو سکا۔ بھارت میں کشمیر پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں، عورتیں اور بچیاں بھی آزادی کی تڑپ کی پاداش میں سڑکوں پر تڑپنے کیلئے چھوڑ دی جاتی ہیں۔ شہیدوں کے قبرستان آباد ہو گئے ہیں۔ کبھی ملالہ نے یا اس کے والد نے کوئی تنقیدی بیان دیا ہے۔ برباد اور بے عزت ہو کر مرنے والی لڑکیوں کے لئے تعزیتی بیان بھی نہیں دیا جاتا۔ ملالہ کی پذیرائی خوش آئند ہے مگر اس کے پیچھے مقاصد کیا ہیں اس پر غور کرنے کے لئے ملالہ کے والد بالکل تیار نہیں۔
یہ کیسا تضاد ہے۔ مجھے اس بات سے دکھ ہوا ہے۔ پاکستان میں لوگوں نے لکھا ہے کہ یہ حملہ ایک ڈرامہ تھا ورنہ اس سے پہلے مرنے والی لڑکیوں کے لئے یورپ، امریکہ اور عالمی میڈیا کی طرف سے ذرا سا اظہار افسوس بھی نہیں ہوا۔ اس پر تنقید ہوئی جب کسی طرف سے کہا گیا کہ ڈرون حملوں میں مرنے والی لڑکیوں کا کچھ نہیں ہوا۔ دھماکوں میں خاک و خون میں ڈوب جانے والی بچیوں کے لئے بھی کچھ نہیں کیا گیا۔ ملالہ کے ساتھ اسے بچاتے ہوئے اس کی دو سہیلیوں کے لئے کچھ نہیں کیا گیا تو آخر یہ کیا معاملہ ہے۔ اس سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے۔ جس سکول میں ملالہ پڑھتی تھی اس کا نام تبدیل کر کے ملالہ ہائی سکول رکھ دیا گیا۔ اس کے خلاف احتجاج ہوا تو پھر پرانا نام بحال کر دیا گیا۔
عالمی ادارے ملالہ کے نام پر پاکستان اور اسلام کو بدنام کر رہے ہیں تو یہ بھی ایک ایسی کارروائی ہے جو ملالہ کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ لوگ خواہ مخواہ مشکوک ہوئے جا رہے ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے حکمران متعصب، جانبدار اور مفاد پرست ہیں۔ یہ بھی کوئی بات ہے کہ ملالہ کو امن کے نوبل انعام کے لئے پیش کیا جا رہا ہے اور خود طالبان سے مذاکرات کر رہے ہیں، پاکستان کو یہ اجازت نہیں دی جاتی۔ اپنی شکست کے جواز کے لئے پاکستان کو بدنام اور ناکام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سوات میں پاکستانی فوج نے بروقت اور زبردست کارروائی کر کے دہشت گردوں کو شکست دی۔ دنیا حیران ہوئی اور امریکہ بھارت پریشان ہو گئے۔ سوات میں دہشت گردوں کا لیڈر فضل اللہ افغانستان میں فرار ہو کر پناہ گزین ہو گیا ہے۔ امریکہ بھارت اور افغانستان اسے تحفظ اور تربیت فراہم کر رہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ملالہ پر حملے کی ساری منصوبہ بندی انہوں نے ہی کی ہو۔ ملالہ نے انہی لوگوں کی تعلیم دشمن کارروائیوں کے خلاف احتجاج کیا اور تعلیم کے حصول میں ہر قربانی دینے کے ارادے کا اظہار کیا۔ وہ دل سے سمجھتی ہے کہ ان دہشت گردوں کو شکست پاکستان میں ہوئی انہیں امریکہ اور بھارت کا تعاون حاصل ہے۔ ان کا یہ مطالبہ غلط ہے کہ شمالی وزیرستان میں کارروائی کی جائے۔
ملالہ کے والد سے امریکہ اور بھارت نے رابطہ کر کے اپنے لئے استعمال کیا ہے۔ اب وہ برطانیہ میں مستقل طور پر آباد ہو گیا ہے۔ اسے پاکستانی سفارت خانے میں خاص طور پر ملازمت بھی دے دی گئی ہے۔ اب وہ کبھی پاکستان واپس نہیں آئے گا۔ سوات کی لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے کے لئے قربانیاں بھی دیں گی مگر انہیں کسی قابل نہیں سمجھا جائے گا۔ وہ ملالہ کی طرح وطن چھوڑ کر نہیں جائیں گی۔
اب ملالہ کا تذکرہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ملالہ کے والد نے پینٹاگان کا دورہ کیا ہے۔ ملالہ ابھی پوری طرح صحت یاب نہیں ہو پا رہی، اس کے دماغ میں زخم نے اسے خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ ہم اس کے لئے دعا گو ہیں اور اس کی زندگی کے لئے پریشان ہیں۔ بھارت کی مظلوم لڑکی بھی ملالہ کی ہمدردی کی مستحق ہے۔ اس طرح بھارت کی بدنامی کا خوف اس کے والد کے دل میں ڈالا گیا ہے تو وہ اس کی پرواہ نہ کرے۔ کشمیر، فلسطین اور وزیرستان کی مرحوم، مظلوم اور معصوم لڑکیاں بھی اس کی توجہ کی منتظر ہیں اور مستحق بھی ہیں۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے سامراج سے نہیں ڈرنا چاہئے، وہ اگر ایک بیان اپنی ہموطن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لئے جاری کرے اور امریکہ سے کہے کہ اس کی مضحکہ خیز اور بلاجواز 86 برس قید کی سزا معاف کرے اور اسے پاکستان جانے دے۔ اس نے امریکی تعلیمی اداروں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ امریکی تعلیمی اداروں میں دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے؟ اس نے پاکستان کے کسی مدرسے میں تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ بے گناہ عافیہ کی سزا امریکی حکمرانوں کے خلاف فردِ جرم ہے۔ یہ امریکہ کے نظامِ عدل کے خلاف چارج شیٹ ہے۔
صحت یاب ہونے کے بعد ملالہ بھی اپنے وطن پاکستان واپس آئے۔ اس کا والد بیرون ملک رہنا چاہتا ہے تو اُسے وہاں رہنے دیا جائے۔ ملالہ کی سہیلیاں خطرے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے سوات میں رہ رہی ہیں، سکول جاتی ہیں، اُسے یاد کرتی ہیں، اس کا انتظار کرتی ہیں۔ اس نے تعلیم کے ذوق و شوق کے لئے جو چراغ جلائے تھے وہ بجھائے نہیں جا سکتے۔ اس روشنی سے پاکستان کے دشمنوں کو فائدہ نہ اٹھانے دیا جائے۔ یہ فائدہ پاکستان کے نقصان میں پوشیدہ ہے۔ کہا جا رہا تھا کہ اُسے علاج کے لئے بیرون ملک بھجوانے کی ضرورت نہیں، پھر اچانک یہ ضرورت کیوں پیش آ گئی۔ اب اس کی وطن واپسی مشکوک اور ناممکن ہو گئی ہے۔ وطن واپسی اس کی زندگی کے لئے ضروری ہے۔ خوبصورت وادیاں، پربتوں کی شہزادیاں، صبح کی چڑیاں، شام کے پرندے، اس کی سہیلیاں اُسے بلاتی ہیں۔