لاہور + اسلام آباد (سپیشل رپورٹر + خبر نگار + آن لائن) امریکہ کو اسلحہ لے کر جانے کی اجازت کے بعد ضروری ہے کہ حکومت پاکستان اس کے لئے خصوصی اقدامات کرے تاکہ چیک کیا جا سکے کہ اسلحہ پاکستان سے باہر پورا جا رہا ہے کہ نہیں کیونکہ دو طرح کے خطرات ہیں ایک تو سی آئی اے ایک سال یہ اسلحہ اس راستے سے پاکستان میں اپنے ایجنٹوں تک پھیلا سکتی ہے جبکہ دوسرا وہ گروپ جو ماضی میں نیٹو کے کنٹینروں پر حملہ کرتے رہے ہیں ان سے اسلحہ کو بچایا جا سکے۔ پروفیسر مبشر ترمذی نے کہا امریکہ روسی ریاستوں اور پاکستان کے روٹ کو اپنا اسلحہ لے جانے کے لئے استعمال کرے گا تاہم امریکہ اس اسلحہ کی آڑ میں پاکستان کے نیوکلیئر اثاثوں کو مانیٹر کرنے والے آلات سی آئی اے کے لوکل ایجنٹ کے حوالے کر سکتا ہے۔ ہمایوں اسلم نے کہا کہ ماضی میں کافی کنٹینرز غائب ہوئے تھے اس کے لئے ضروری ہے کہ اسلحہ کے کینٹرز نکالتے وقت خصوصی فورس تعینات کی جائے، سٹیلائٹ اور ٹریکنگ سسٹم کے ذریعے ان کنٹینروں کو چیک کیا جاتا رہے۔ معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل (ر) نصیر اختر نے کہا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج اور اسلحہ کی بذریعہ چمن اور طورخم امر یکہ واپسی کے وقت حکومت کو بہت زیادہ محتاط اور چوکس رہنا ہو گا، کنٹینروں پر حملے کنٹرول کرنا ہو گا۔ نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل (ر) نصیر اختر نے کہا کہ پوری قوم کا مطالبہ تھا کہ غیر ملکی افواج افغانستان سے نکل جائیں، اب وہ وقت آ چکا ہے امریکی افواج کو افغانستان سے انخلا کے لئے راستہ دینا ضروری تھا مگر موجودہ حالات میں بے حد محتاط رہنا ہو گا۔ امریکیوں کو ملکی تحفظ بھی کرنا ہو گا، کھلا چھوڑ دینے کی پالیسی نہیں چلے گی۔ دریں اثناءانصار الامہ پاکستان کے امیر و دفاع پاکستان کونسل کے مرکزی رہنما مولانا فضل الرحمن خلیل نے کہا ہے کہ حکومت نے امریکی اشاروں پر ایک مرتبہ پھر سودے بازی کی ہے اور امریکہ کو طورخم اور چمن بارڈر سے اسلحہ لے جانے کی اجازت دے کر قوم کی امنگوں کا سودا کیا ہے۔