پی آئی اے کی نجکاری‘ آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرنے پر قائمہ کمیٹی کا اظہار تشویش‘ وزارت خزانہ سے وضاحت طلب

پی آئی اے کی نجکاری‘ آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرنے پر قائمہ کمیٹی کا اظہار تشویش‘ وزارت خزانہ سے وضاحت طلب

Jan 03, 2014

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) سینٹ کی مجلس قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و منصوبہ بندی نے پی آئی اے کی نجکاری کے بارے میں آئی ایم ایف کی شرائط تسلےم کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور وزارت خزانہ سے وضاحت طلب کر لی ہے۔ مجلس قائمہ کے ارکان نے حکومت سے استفسار کیا ہے کہ وہ منافع بخش اداروںکی نج کاری کیوں کرنا چاہتی ہے؟ تاہم حکومت نے ےقےن دہانی کرائی ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والی شرائط حکومت کیلئے پابندی نہیں بلکہ ان میں تبدیلی کر سکتی ہے کیونکہ یہ حکومت کی جانب سے قرضے کے حصول کیلئے آئی ایم ایف کو اپنے مالی پروگرام سے متعلق ہیں۔ جمعرات کو مجلس قائمہ برائے خزانہ و منصوبہ بندی کا اجلاس چیئرپرسن نسرین جلیل کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاﺅس میں ہوا جس میں پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والی شرائط کے حوالے سے کمیٹی کو بریفنگ دی گئی۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات سے پہلے پی آئی اے کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا سیکرٹری خزانہ وقار مسعود نے مجلس قائمہ کو بتایا کہ پی آئی اے کی نج کاری حکومت کی جانب سے مجوزہ سرکاری اداروں کی سرفہرست نہیں ہے بلکہ حکومت نے اس حوالے سے ایک مالی مشیر مقرر کرنے پر اتفاق کیا ہے جسے مارچ تک مقرر کردیا جائے گا۔ حکومت نے قرضے کے حصول کیلئے آئی ایم ایف کو اپنا مالی پروگرام دیا تھا جس میں تبدیلی ممکن ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ یہ طے پایا تھا کہ جون تک پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے عمل کو شروع کردیا جائے گا لیکن اب پہلے جائزے کے بعد یہ تاریخ 31 دسمبر تک طے پائی ہے۔حکومت نے جلد بازی میں پی آئی اے کی نجکاری کا پروگرام شروع نہیں کیا بلکہ گزشتہ حکومت نے پی آئی اے سمیت 61 اداروں کی نجکاری کو مشترکہ مفادات کونسل سے پاس کروایا تھا پی آئی اے کا مجموعی خسارہ 152ارب روپے ہے۔ سینٹ کی مجلس قائمہ کے اجلاس مےں بعض ارکان پی آئی اے کی نجکاری کے معاملے پر حکومت پر شدید تنقید کی اور کہا کہ حکومت ایک مخصوص گروپ کے فائدے کیلئے پی آئی اے کی نجکاری کرنا چاہتی ہے پیپلز پارٹی کے سےنےٹرز نے کہا کہ وہ پی آئی اے کی نج کاری کی بھرپور مخالفت کرےں گے اور نجکاری نہیں ہونے دی جائے گی۔ نسرین جلیل نے کہا کہ اداروں کی نجکاری سے قبل شفاف طریقہ کار اپنایا جائے اور منافع بخش اداروں کو نجکاری کی فہرست سے نکال کر بیمار اداروں کو بحال کرنے کے اقدامات کئے جائیں اگر حکومتوں کی طرف سے اداروں کو فروخت کرنے کا یہ عمل جاری رہا توکوئی ادارہ بھی نہیں بچے گا۔ سینیٹر بیگم کلثوم پروین نے کہا کہ ہر ادارہ بیچ دو کے اشتہار سے پاکستان کی بنیادیں کمزور ہونگی۔ سنیٹر عثمان سیف اللہ نے کہا کہ دنیا بھر میں معاشی بحران میں بھی صرف منافع بخش اداروں کو ہی فروخت کیا جاتا ہے۔ پی آئی اے کے روٹس بحال کرنے سے ہی منافع حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سنیٹر صغرٰی امام نے کہا کہ 26 فیصد حصص پہلے ہی فروخت کرنے کیلئے پیش کرنے سے ثابت ہو تا ہے کہ پی آئی اے کو فروخت کرنے کا فیصلہ ہو چکا۔ آئی ایم ایف سے خصوصی ہدایات نہیں لی گئیں۔ دسمبر 2014ءتک فنانشل ایڈوائز کی تعیناتی اداروں کی مکمل تفصیلات ملازمین اداروں کی اثاثہ جات، نقصانات، اضافہ کے بارے میں تمام تفصیلات کے حوالے سے نجکاری کمیشن کے 8 جنوری کے اجلاس میں فیصلے کے بعد الگ الگ محکموں کو نجکاری کے لئے پیش کیا جائیگا۔ سینیٹر نزہت صادق نے پی آئی اے کی نجکاری کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے قومی ادارے کو اپنے پاو¿ں پر کھڑا کرنے کیلئے صرف 26 فیصد حصص فروخت کے لئے پیش کئے جا رہے ہیں۔ وزیر مملکت زبیر عمر نے کمیٹی کے اجلاس میں یقین دہانی کرائی کہ نجکاری کا عمل شفاف طریقے سے ہو گا اور ہر ادارے کی نجکاری کے موقع پر پارلیمنٹ، عوام، سول سوسائٹی، میڈیاءکو اس عمل میں بھر پور شرکت کے مواقع فراہم کئے جائیں گے۔
پی آئی اے/ کمیٹی

مزیدخبریں