ریاست انصاف مانگتی ہے!

وہی ہُوا جس کا ڈر تھا۔ بہت سارے بدگمانوں کی طرح مجھے بھی اندیشہ تھا کہ فوجی عدالتوں کے قیام کی بیل آسانی سے منڈھے نہیں چڑھ سکے گی۔ کچھ روز قبل کل جماعتی میلے میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور آئی ایس آئی چیف جنرل رضوان اختر کی موجودگی میں جمہوریت کے سارے چیمپئن ہاتھ باندھے، نگاہیں خم کئے ، باادب باملاحظہ ہوشیار کی مجسم تصویر بنے بیٹھے تھے ٗ باہر نکلتے ہی دانت دکھانے لگے ہیں۔ بڑے کھانے میں جو زبانیں گنگ تھیں، دھیرے دھیرے لکنت سے باہر آ رہی ہیں اور کئی ایک اب کھل کر ان عدالتوں کی ساخت کے حوالے سے سوال اٹھانے لگے ہیں اور کئی ایک نے تو فوجی عدالتوں کے قیام کی اعلانیہ مخالفت شروع کر دی ہے۔ ملک میں مجوزہ عدالتوں کے حوالے سے پنڈورا بکس کھل گیا ہے۔ اور تو اور ہمارے سابق چیف جسٹس جناب افتخار چوہدری طویل سکتے سے باہر آ گئے ہیں اور انہوں نے بھی قرار دیا ہے کہ آئین میں ایسی فوجی عدالتوں کے قیام کی کوئی گنجائش ہی موجود نہیں ہے۔ یہ اور بات ہے کہ عوام نے افتخار چوہدری کو پاکستان کی تاریخ میں ایک سنہری موقع دیا تھا، وہ اپنے فیصلوں سے اس ملک کی تقدیر بدل سکتے تھے مگر وہ کچھ اور نکلے اور انہوں نے اپنے متنازع کردار سے ملک کو ایک نئے بحران میں دھکیل دیا۔ انکا پیداکردہ بحران اب سنگین تر ہو گیا ہے۔ ہم نے ہمیشہ ریاست سے بے وفائی کی ٗ اب ریاست ہماری چادر سے باہر نکل رہی ہے۔ اس بحران سے نکلنے کا ایک واحد راستہ ٗ اٹھارہویں ترمیم کی شکل میں موجود تھا، اگر اس پر اس کی روح کے عین مطابق عمل کر دیا جاتا تو نظام کی اوور ہالنگ کے سارے اسباب خود بہ خود پیدا ہو جاتے مگر اٹھارہویں ترمیم کے خالق بھی اس پر عملدرآمدکے حوالے سے متذبذب اور خوفزدہ ہیں۔ ہماری کوتاہیوں کاسلسلہ طویل ہے جس کے سبب پاکستان بدقسمتی سے ریاستی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے اس لئے سب کے ہاتھ پائوں پھولے ہوئے ہیں۔ موجودہ حالات کے ذمہ دار صرف جرنیل یا سیاستدان نہیں بلکہ افتخار چوہدری جیسے جج بھی ہیں جنہوں نے آمرانہ ادوار میں نظام کی ہانڈی کو نظریہ ضرورت کا بگھار لگا کر آمریت کو سربلندی کی سندیں عطا کیں، جس کی سزا ہم آج بھگت رہے ہیں۔
بات تاریخی بھی ہے اور کئی بار تحریر بھی کی جا چکی ہے لیکن ہمارے حسب حال ہے۔ میں اس لئے دہرانے پر مجبور ہوں : دوسری جنگ عظیم میں جب برطانیہ شکست کے دہانہ پر کھڑا تھا ٗ وزیراعظم چرچل نے ایسا ہی ایک کُل جماعتی میلہ سجایا جیسا پچھلے دنوں ہمارے ہاں سجا۔ اس اجتماع میں وزیراعظم چرچل نے ملک کے سب کرتائوں دھرتائوں کے علاوہ ججوں کو بھی بُلا بھیجا اور ان سے پوچھا کہ کیا ہماری عدالتوں میں انصاف مل رہا ہے؟ تو اسے بتایا گیا کہ جی حالت جنگ میں بھی عدالتوں میں بلاتفریق اور بلا امتیاز انصاف مل رہا ہے تو چرچل نے سُکھ کا سانس لیا اور کہا کہ ’’اگر ہماری عدالتوں میں انصاف کی فراوانی ہے تو کوئی دشمن ہمیں شکست سے دوچار نہیں کر سکتا۔‘‘ ہم بھی آج حالت جنگ میں ہیں ٗ دشمن ہماری شہ رگ تک آ پہنچا ہے تو ذرا اپنے عدل کے ایوانوں کی طرف نگاہ دوڑائیں ٗ کیا وہاں انصاف کا بول بالا ہے، کیا انصاف اس ملک اور اس کے عوام کو کبھی مل سکا ہے؟ تصویر بڑی بھیانک ہے جو ہمیں شرمندہ کرنے کیلئے کافی ہے۔ جس ملک میں 45 ہزار مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر التوا ہوں وہاں قومی بقا کی جنگ جیتنے کی توقع رکھنا بھی عبث ہے۔ ان زیر التوا مقدمات میں قتل ٗ دہشت گردی ٗ اغوا برائے تاوان ٗ بھتہ خوری ٗ ڈکیتی، بم دھماکوں اور سنگین بدعنوانیوں کے مقدمات نمایاں ہیں۔ عدم سماعت اور بے قاعدگیوں کی وجہ سے ان مقدمات کے فیصلے بروقت نہیں ہو سکے جس کی وجہ سے دہشت گردوں ٗ جرائم پیشہ افراد ٗ جنگجو اور ملک دشمن عناصر کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں اور ان کی گستاخیاں ہیں کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہیں۔ پورا ملک غیر ریاستی عناصر کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے۔ اس صورت حال کے اسباب میں غیر ملکی ہاتھ بھی کار فرما رہا ہے ٗ اس سے انکار ممکن نہیں لیکن ہمارے عدالتی نظام میں کہیں نہ کہیں کوئی ایسا سقم ٗ کوئی خلا ٗ کوئی گڑبڑ موجود ہے جس کی وجہ سے ملک لاقانونیت اور ناانصافی کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔ یوں تو ملک میں سب ادارے سسکیاں لے رہے ہیں لیکن عدلیہ کُلی طور پر ناکام ہو چکی ہے، ملک میں عدالت کے پہیے جام ہو چکے ہیں ٗ عام آدمی انصاف کے حصول کیلئے عدالتوں کے چکر کاٹ کاٹ کر ساری جمع پونجی اور حواس کھو بیٹھتا ہے لیکن انصاف کی دھول کو بھی نہیں چُھو سکتا۔سرائیکی زبان کے مجذوب شاعر شاکر شجاع آبادی نے پاکستان میں انصاف کے نام پر ہونے والے مذاق پر دو شعر کہے تھے جو عام آدمی کے دل کی فریاد لگتے ہیں:
اْتے انصاف دا پرچم
تلے انصاف وکدا پے
ایہو جہی ہر عدالت کوں
بمعہ عملہ اڈا ڈیوو
ملک میں پہلے دہشت گردی انفرادی تھی ٗ مخالفین کو ٹھکانے لگایا جا رہا تھا ٗ حکومت اور عوام کو نشانہ بنایا جا رہا تھا ٗ اب براہ راست ریاست نشانے پر ہے۔ ملک دشمن جنگجو عناصر نے ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رکھا ہے۔ نظام کی سڑاند کا یہ عالم ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی عملداری بالکل ختم ہو گئی ہے اور حکمران بے چارے خود اپنی کھالیں بچاتے پھرتے ہیں۔ حکومت اور عدلیہ کو دہشتگردی کے خاتمے کا مینڈیٹ ملا تھا جسے وہ پورا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ ان ناکامیوں نے ’’مضبوط پارلیمان‘‘ اور’’آزاد اور خود مختار عدلیہ‘‘ کی موجودگی میں فوجی انصاف کا تصور دیا ہے جسے کسی نہ کسی شکل میں سیاستدانوں کوآج نہیں توکل قبول کرنا ہی پڑیگا۔میں نے قانون پڑھاہے لیکن قانون دان نہیںہوں ٗ ادب و صحافت کا ادنی سا طالب علم ہوں، قانون کے بارے میں زیادہ جاننے کا دعویٰ نہیں کرتا اور نہ ہی قانون کی موشگافیوں میں اُلجھنا چاہتاہوں لیکن جس قدر ملک میں اندھیرے پھیل رہے ہیں ٗ جس طرح ہر طرف مایوسیاں پَر پھیلا رہی ہیں ٗ ان پر ہر پاکستانی کی طرح میرا بھی دل مضطرب ہے۔ آج پاکستان کی ریاست اپنے اداروں سے ٗ ہم سب سے انصاف مانگتی ہے ٗ کوئی ہے جوآگے بڑھ کر ریاست کی اشک شوئی کرے!

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...