میرے بہت سے قارئین و قارِیات کا اصرار تھا کہ ”پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے آپ مُفید مشوروں کے لئے ”بابا ٹلّ“ سے فوری طور پر رابطہ کریں اور اپنے کالم کے ذریعہ اُن کے مُفید مشوروں (نُورِ بصِیرت) کو عام کر دیں!“ مَیں نے عرض کِیا کہ ”بابا ٹلّ، چراغ اَلہ دِین کے جِن کی طرح نہیں ہیں کہ جِس کسی نے اُس چراغ کو رگڑا یا گِھسایا، بابا ٹلّ فوراً حاضر ہو جائیں گے۔ بابا ٹلّ تو اپنی مرضی سے میرے خواب میں آتے ہیں۔ میری خواہش کے مطابق نہیں۔ ”بہرحال مَیں نے کل رات سونے سے قبل اِس خواہش کا اظہار کِیا کہ ¾ کیا ہی اچھا ہو کہ بابا ٹلّ سے خواب میں مُلاقات ہو جائے؟ تو ہو گئی۔ یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ بابا ٹلّ سے ملاقات کے لئے یہ میری دُعا نہیں بلکہ خواہش تھی۔ بابا ٹلّ نے زور زور سے ٹلّ بجایا اور حسبِ سابق میرے ڈرائنگ روم میں سنگل صوفے پر بیٹھ گئے۔ اِس بار بہت پریشان دِکھائی دیئے۔ مَیں نے پُوچھا۔ بابا ٹل جی ! خیریت تو ہے؟
بابا ٹل : ”خیریت کہاں ہوگی؟ دہشت گردوں نے ایٹمی طاقت پاکستان کے معصوم اور بے گناہ لوگوں کی زندگی کو عذاب میں مُبتلا کر رکھا ہے۔ پشاور میں سکول کے بچّوں کی شہادت کے بعد تو حد ہو گئی لیکن ہمارے حکمران ¾ اُن کے اتحادی اور حزبِ اختلاف کے سیاستدان اور مذہبی جماعتوں کے قائدین بھی ¾ اِس طرح کے بیانات تو دے رہے ہیں کہ ”سانحہ¿ پشاور نے قوم کو مُتّحد کر دِیا ہے۔“ لیکن خُود مُتّحد نہیں ہوتے؟ کیا یہ خیریت ہے؟
مَیں :۔ بابا ٹلّ جی! آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ حکمران حزبِ اختلاف کے سیاستدان اور مذہبی جماعتوں کے قائدین مُتّحد نہیں ہیں؟
بابا ٹل:۔ ”اگر یہ صاحبان مُتّحد ہوتے تو سال 2015 ءکے پہلے دِن۔ یکم جنوری کو کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد جنرل راحیل شریف اِس طرح کا اعلان نہ کرتے کہ ”پُوری قوم دہشت گردوں اور اُن کے ہمدردوں کے خلاف جُرا¿ت مندانہ فیصلوں کے لئے سیاسی اور عسکری قیادت کی طرف دیکھ رہی ہے۔“
مَیں :۔ تو پھر؟
بابا ٹل:۔ ”جنرل راحیل شریف نے یہ بھی کہا کہ ”دہشت گردی کے خلاف ایکشن پلان پر عملدرآمد میں مزید وقت ضائع نہ کِیا جائے اور سیاسی اتفاق کو چھوٹے چھوٹے اختلافات کی نذر نہ کِیا جائے۔“
مَیں ۔ تو پھر؟
بابا ٹل:۔”اثر چوہان صاحب! مَیں تو آپ کو کافی سمجھ دار سمجھتا تھا لیکن ¾ آپ تو بہت ہی بے حِس واقع ہُوئے ہیں۔ آپ کو میری بات سمجھ ہی نہیں آ رہی؟“
مَیں:۔ بابا ٹلّ جی!۔ مَیں بے حِسّ نہیں ہوں۔ در اصل ہمارے سیاستدان اور عُلماءبھی۔”سیاسی اتفاق“ کو اپنے چھوٹے چھوٹے اختلافات کی نذر کر کے ”جمہوریت کا حُسن“ اُجاگر کر رہے ہیں لیکن وزیرِاعظم نواز شریف ہیں کہ اعلان پر اعلان کر رہے ہیں کہ ”ہمارا ایکشن پلان دہشت گردوں کو تباہ و برباد کر دے گا اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں کوئی بھی غیر جانبدار نہیں رہ سکتا۔“ اور کیا چاہتے ہیں آپ؟
بابا ٹلّ:۔ لیکن یہ دِینی مدارس کا معاملہ کیوں اُلجھ گیا ہے؟ مولانا سمیع اُلحق ¾ مولانا فضل اُلرحمن ¾ جناب سراج الحق اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظمِ اعلیٰ مولانا محمد حنیف جالندھری علی الاعلان کہہ رہے ہیں کہ ”ہم مدارس کے خلاف کارروائی نہیں ہونے دیں گے۔ حالات تو مزید خراب ہو رہے ہیں۔“
مَیں:۔ ”دراصل جناب وزیرِاعظم کے ”ذہِین و فطِین اور دَبنگ وزیرِ داخلہ“چودھری نثار علی خان نے ”دہشت گرد مدارس اور پُرامن مدارس“ میں فرق بیان کر کے معاملہ گڑبڑ کر دِیا ہے۔
بابا ٹلّ:۔ ”چودھری نثار علی خان؟ جنہوں نے ”مُحِبِ وطن طالبان“ اور غیر مُحِب وطن طالبان“ میں فرق بیان کِیا تھا لیکن اُنہوں نے ”دہشت گرد مدارس اور پُرامن مدارس“ کی تراکیب کب استعمال کی ہیں؟
میں ۔ آپ 21 دسمبر 2013 ءکو کہاں تھے؟
بابا ٹل:ّ۔ ”مَیں اُس دِن اپنے لڑکپن کے بیمار دوست ”قائدِ اِنقلاب“ علّامہ طاہر اُلقادری کی عیادت میں مصروف تھا۔“
مَیں : ”قائدِ اِنقلاب؟“ کی اب آخری خواہش کیا ہے؟
بابا ٹلّ:۔ ”قائدِ اِنقلاب“ نے فرمایا ہے کہ ”جب تک اِنقلاب خُود مجھے لے جانے کے لئے نہیں آئے گا ¾ مَیں پاکستان کبھی نہیں جاﺅں گا؟“ ہاں! تو آپ 21 دسمبر 2013 ءکی بات کر رہے تھے؟ کیا ہُوا تھا اُس دِن؟“
مَیں:۔ 21 دسمبر کو الیکٹرانک مِیڈیا پر چودھری نثار علی خان نے اقوامِ عالم کو بتایا تھا کہ ”پاکستان میں 90 فیصد سے زیادہ دِینی مدرسوں کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔“
بابا ٹلّ:۔ کیا چودھری صاحب نے دہشت گردی سے لا تعلق دِینی مدارس کے منتظمین کو ”اچھے چال چلن“ کے سرٹیفیکیٹس جاری کر دیئے؟“
مَیں:۔ یہ تو مجھے معلوم نہیں لیکن اب صُورت یہ ہے کہ مدرسوں سے متعلق عُلماءکی طرف سے وزیر داخلہ سے پُوچھا جا رہا ہے کہ ” اے ہر موضوع پر بہت زیادہ بولنے والے ¾ خوبصورت بالوں والے دَبنگ نوجوان! تم اُن مدرسوں کا نام لینے میں کیوں شرماتے ہو جو ¾ دہشت گردی میں ملّوث ہیں؟“
بابا ٹلّ:۔ ”تو اب کیسے پتہ چلے گا کہ کون سا دِینی مدرسہ دہشت گردوں کو پیدا کرتا یا پروان چڑھاتا رہا ہے؟
مَیں:۔ شاید چودھری نثار علی خان نے استخارہ کر کے معلوم کر لِیا ہو گا اور انہوں نے دہشت گردوں کی فیکٹریوں کا کردار ادا کرنے والے مدرسوں کی فہرست جناب وزیرِاعظم کو پیش کر دی ہوگی اور اب وہ جنرل راحیل شریف کو دے دیں؟ لیکن جنرل صاحب کے لئے اُن مدرسوں کے خلاف کارروائی کرنا بہت مشکل ہو گا۔
بابا ٹلّ :۔ وہ کیسے؟
مَیں:۔ جیسے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دَور میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں چُھپے مسلّح دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کر کے جنرل صاحب ابھی تک مشکل میں ہیں اور مولوی عبدالعزیز ¾ علّامہ طاہر القادری کی طرح لباسِ فاخرہ پہن کر پاکستان میں اب بھی اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرنے کے لئے الیکٹرانک مِیڈیا پر اعضاءکی شاعری کر رہے ہیں۔
بابا ٹلّ :۔ اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ دہشت گردی میں ملّوث کسی دِینی مدرسے کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی؟
مَیں:۔ یہی سوال تو مَیں آپ سے پُوچھنے والا تھا؟
بابا ٹلّ:۔ تو کیا دہشت گردوں کو سزا دینے کے لئے فوجی عدالتیں نہیں بنیں گی؟
مَیں:۔ لیکن مسئلہ ”معاشی دہشت گردوں“ کا بھی ہے۔ جِن میں زیادہ تر سیاسی جماعتوں کے کرتا دھرتا ہیں اور بعض پارلیمنٹ میں بھی“ وہ چاہتے ہیں کہ ”صِرف اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرنے والوں کے آلہ¿ کار خودکُش حملہ آوروں کو ہی دہشت گرد قرار دے کر پھانسی دی جائے۔ اللہ اللہ! خیر صلّا۔
بابا ٹلّ :۔ ”پھر وزیرِاعظم اور آرمی چیف کے اعلان کے مطابق دہشت گردوں کے ”سہولت کاروں“ کو کون پھانسی دے گا؟“
مَیں:۔ صِرف اور صِرف فوجی عدالتیں! اِس لئے کہ ”سہولت کاروں“ میں کچھ ” تقدّس مآب“ لوگ بھی آتے ہیں اور ”جمہوری حکومت“ اُن کی طرف مَیلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھ سکتی۔
بابا ٹلّ:۔ ”اِس کا مطلب یہ ہے کہ جنرل راحیل شریف کو مَیدان میں اُترنا ہوگا۔“
مَیں :۔ ”جنرل راحیل شریف تو اب بھی میدان میں ہیں۔“
بابا ٹلّ:۔ ”میرے کہنے کا یہ مطلب ہے کہ ہر درجہ کی دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ¾ سیاستدانوں کے اختلاف رائے یعنی ”جمہوریت کا حُسن“ قائم رہے گا تو بات نہیں بنے گی۔ مجھے جنرل راحیل شریف کے خواب میں بھی اُترنا ہو گا۔“
بابا ٹلّ کے عزائم سے مَیں خوفزدہ ہو گیا۔ پھر میری آنکھ کُھل گئی اور مجھے اپنی آنکھ بھی مَیلی مَیلی محسوس ہُوئی۔