”اتحادِ امت کے عملی تقاضے“

ہمارا ملک پاکستان،اس وقت ہمہ گیر بحرانوں کا شکار ہے۔ یہ تمام بحران حکمرانوں کے خود ساختہ ہیں ۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی ملک کو جان بوجھ کر ایک مصنوعی آئینی بحران کا شکا ر کر دیا گیا تھا جو ابھی تک جاری ہے۔اس خود ساختہ آئینی بحران کوحل کرنے کی بجائے ، اغیار کی سازش کے تحت تمام حکمران اپنے اپنے ادوار میں،اسے اور گہرا کرتے چلے گئے۔اس طرح پاکستان کو اسکے اسلامی نظریے سے دور رکھنے کیلئے ،نت نئے بحران پیدا کئے جاتے رہے۔99 فیصد مسلمانوں کے ملک میں ،لادینیت اور عریانی وفحاشی کا طوفانِ بدتمیزی اٹھا دیاگیا۔مختلف مسالک کے درمیان فرقہ واریت کو ہوا دی گئی۔علاقائیت اور لسانیت کو ابھارا گیا۔انتخابی عمل میں دولت ،اسلحہ اور دھونس ودھمکی کیساتھ دھاندلی کو سرکاری سرپرستی میں رواج دیا گیا ۔باہمی محض الزام تراشیوں سے سیاسست کو ،ایک گالی بنا دیا گیا۔یہ سارے بحران اور یہ ساری سازشیں ، قیامِ پاکستان کے مقاصد ،اسلامی نظام کے نفاذکی منزل کے حصول کو مشکل بنانے کے حربے ہیںاور ہم تمام پاکستانی مسلمانوں کو اپنے اتحاد اور یکجہتی سے ان سازشوں کو ناکام بنا کر ،تمام مصنوعی بحرانوں کا حل نکالنا ہے۔ مذہبی اور دینی قیادتوں نے ماضی میں بھی اپنا یہ فریضہ بطریقِ احسن ادا کیا ہے۔ہر موقع پر جماعت اسلامی نے ہمیشہ آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کیا ۔

دینی جماعتوں کی ان تمام کوششوں کے باوجود ، ہمارے حکمران مسلسل،اغیار کے آلہ کار کے طور پر، اسلام کیخلاف سازشوں کی سرپرستی کرتے آرہے ہیں۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ اب بعض مذہبی گروپ بھی نادانستہ طور پران سازشوں کا شکار ہو رہے ہیں۔جس سے اسلام مخالف سازشوں کی ہماری مزاحمتی کوششوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اتحادِ امت کو برقرار رکھنے کیلئے ،علماءاور مختلف مسالک کے درمیان روادار ی اور یکجہتی کو فروغ دیا جائے اور اس مقصد کے حصول کیلئے فرقہ وارانہ اختلافات کی شدت میں کمی لائی جائے ،مساجد میں منبرومحراب سے معاشرے کی اصلاح کاکام لیا جائے۔دینی مدارس کو حقیقی دینی تعلیم کا پابند بنایا جائے۔ اسی طرح علماءکو تعمیری دعوت واصلاح کی طرف متوجہ کیا جائے۔وقت اور حالات کاسب سے اہم عملی تقاضایہ ہے کہ پاکستان میں ”نفاذِ شریعت “ کیلئے انتخابی میدان میں ،دینی وسیاسی جماعتیں مل جل کر باہمی تعاون سے جدوجہد کریں۔ پاکستان میں شریعت کا نفاذ ہر ایک کے انتخابی منشور کی بنیاد ہو۔اس مقصد کو ہرگز متنازعہ نہ بنایا جائے۔امت اس وقت تک متحد نہیں ہو سکتی اور مسلم معاشرے میں اس وقت تک یکجہتی کو فروغ حاصل نہیں ہو سکتا جب تک علماءکرام اور دینی جماعتوں میں اخوت ومحبت کے جذبات پیدا نہ ہوںلیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم بنیادی اسلامی تعلیمات اور انکے جدید تقاضوںکو پیشِ نظر رکھیں اور انہی کے تناظر میں ایک دوسرے کے مو¿قف کو سمجھنے کیلئے، اپنے اندر ذہنی آمادگی پیدا کریں۔درج ذیل نکات عملی طور پراتحادِ امت کی بنیادیں فراہم کر سکتے ہیں۔
1۔اسلام نہ صرف ایک مذہب ہے بلکہ ایک دین یعنی مکمل ”ضابطہ حیات“ ہے۔اس کو دین ودنیااور اسلام و سیاست کے الگ الگ خانوں میں بانٹنا مناسب نہیںاور نہ ہی دنیا اور سیاست سے لاتعلق رہنا روا ہے۔ ایسی مذہبی سوچ کی فوری اصلاح کی ضرورت ہے۔
2۔جس طرح دنیا اور سیاست کوترک کرنا مناسب نہیں اسی طرح دین کو دنیا اور اسلام کو سیاست کے تابع کرنا بھی نا مناسب ہے۔لہٰذا دنیا اور سیاست کو دینِ اسلام کے تابع رکھنا مطلوب ہے۔ایسی شکست خورد ہ سوچ کی اصلاح کی بھی اشد ضرورت ہے۔
3۔اس بنیادی تعلیم سے واضح ہے کہ دینِ اسلام ،ہر فرد کا محض انفرادی معاملہ نہیں ہے ۔یہ تو تمام انسانوں کا اجتماعی مسئلہ ہے۔اسکے نظامِ عدل،نظامِ حکمرانی اور دیگر نظاموں کا دائرہ کار اجتماعیت کا غماز ہے۔
4۔اسی طرح نفاذِ شریعت کیلئے ”بلٹ“ نہیں ”بیلٹ “ کا راستہ موزوں ہے کیونکہ اسلام پرتشد طریقہ کی اجازت نہیں دیتااس لئے کہ ہم سعی اور جدوجہد کے مکلف ہیں۔کامیابی تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
5۔ اسلامی پاکستان۔۔۔خوشحال پاکستان “ یعنی پاکستان کی ترقی ،اسلامی نظام کے نفاذ کے بغیر ناممکن ہے۔اس کا منہ بولتا ثبوت ،پاکستان کی 67سالہ تاریخ ہے۔ہم دیکھ رہے ہیںکہ لادینی،سیکولر نظام کا تسلسل قائم ہے ،صرف پارٹیاں اور چہرے بدل رہے ہیں۔ اسلام کا نظام آئے گا تو اللہ ہم سے راضی ہوگا اور پھر امتِ مسلمہ بھی ،امتِ واحدہ بن جائیگی۔
٭۔تحادِ امت کیلئے ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے فورم پر منظور کردہ درج ذیل متفقہ نکات سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
1۔آئین پاکستان کے آرٹیکل 2 میں ترمیم کی جائے کہ قرآن وسنت ،ملک میں بالا تر قانون ہوگا جس کے متصادم کوئی قانون سازی نہیں ہو سکتی اور تمام موجودہ قوانین کو ایک طے شدہ مدت کے اندر ،اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں شریعت سے ہم آہنگ کردیا جائے ۔2۔ خارجہ پالیسی ،ملک کی نظریاتی اساس کی بنیاد پر ،ملکی مفادات کے مطابق تشکیل دی جائے ۔3۔مسجد بنانے پر ناروا پابندیاں ختم کی جائینگی اور مدرسہ آرڈیننس کا خاتمہ کیا جائے ۔
4۔اسکولوں اور کالجوں کے نصاب میں سے خارج کئے گئے اسلامیات اور دینیات کے مضامین کو دوبارہ
نصاب میں شامل کیا جائے۔5۔ملک میں اسلامی اقدار ،تہذیب ومعاشرت کو یقینی بنانے کیلئے الیکٹرانک میڈیا کا قبلہ درست کیا جائے ۔6۔ملک میں بلاسود معیشت کےلئے ،وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے شرعی ججوں کے فیصلوں پر عمل کیا جائے ۔
7۔اختلافات اور بگاڑ کو دور کرنے کےلئے ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ تمام مکاتبِ فکر اورنظمِ مملکت ، نفاذِ شریعت کےلئے ،ایک بنیاد پر متفق ہوں۔چنانچہ اس مقصد کیلئے ہم 31سرکردہ علماءکے 22نکات کو بنیاد بنانے پرمتفق ہیں۔8۔ہم ملک میں مذہب کے نام پر دہشت گردی اور قتل وغارت گری کو اسلام کےخلاف سمجھتے ہیںاور اسکی پر زورمذمت کرتے ہیں۔9۔کسی بھی اسلامی فرقہ کو کافر اور اسکے افراد کو واجب القتل قرار دینا،غیراسلامی اورقابلِ نفرت فعل ہے۔10۔ نبی اکرم کی توہین کا مرتکب فرد ،شرعاً قانوناً موت کی سزا کا مستحق ہے۔اسی طرح عظمتِ صحابہؓ اور عظمتِ اہلِ بیت ،ایمان کا جزہے۔
٭۔اتحادِ امت کے یہ وہ اہم عملی تقاضے ہیں جن کو پورا کرکے ہم اسلام ،پاکستان اور مسلمانوں کےخلاف ہونیوالی ہر سازش کو ناکا م بنا سکتے ہیں ۔اسلام ، پاکستان اور مسلمانوں کا دشمن ہمارے باہمی چھوٹے چھوٹے اختلافات کا سہارا لے کر ہی ہمیں نقصان پہنچا رہا ہے ہماری انہی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر وہ ہم پر انتہاپسندی، شدت پسندی اور دہشتگردی کا الزام دھر رہا ہے۔ اسلام امن اور رواداری کا علمبردار دین ہے۔یہ بھائی چارے اور اخوت و محبت کا درس دیتا ہے۔یہ انسانوں کے اندر پہلے ذہنی انقلاب برپا کرتا ہے۔اسکے بعد اتحاد واتفاق کے ساتھ ،پر امن طور پر اسلامی شریعت کے نفاذ کی راہ ہموار کرنے کا سبق دیتا ہے۔یہ کسی مرحلے پر بھی باہمی جنگ وجدال کی اجازت نہیں دیتا۔جو گروہ اسلامی شریعت کے نام پر لوگوں میں نفرتیں پھیلاتے ہیں اور قتل وغارت گری کا بازار گرم کرتے ہیں وہ قوم وملک کے دشمنوںکا کام آسان کرتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن