سب سے پہلے میں اپنے پیارے پاکستان کو دعا دیتی ہوں۔ سلامتی کی استحکام کی خوش حالی اور خوش اطواری کی....
اس پاکستان نے ہمیں دنیا میں سربلندی عطا کی ہے۔ بہت سے ملکوں میں ہم سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ بہت سے جھنڈوں میں ہمارا سبز پرچم لہرا رہا ہے۔
اس کے بعد میں دعا دیتی ہوں۔ اپنی قابل صد افتخار فوج کو، چھوٹے بڑے افسروںکو، دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کے آگے یہ فوج سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہے.... یہ فولادی فوج ہے۔ اس کی وجہ سے آج پاکستان کے شہروں میں امن اور چین نظر آ رہا ہے۔ ان کی وجہ سے شہری راتوں کو چین کی نیند سوتے ہیں۔ ان کی وجہ سے ہر گھر میں کوئی بچہ یونیفارم پہن کر بری، بحری اور ہوائی فوج میں جانثار بننا چاہتا ہے۔
پھر پاکستان کے اندر بسنے والے ہر پاکستانی کےلئے دعا گو ہوں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ سب کے گھروں کو عافیت کدہ بنا دے۔ کوئی کسی کا محتاج نہ ہو۔ ہر گھر میں روشنی ہو۔ ہر گھر میں آسودگی ہو۔ والدین کو راحت نصیب ہو اور ہر بچے کی قسمت کا ستارہ چمکے۔ آمین!
ڈرتے ڈرتے ارباب بست و کشاد کےلئے دعا کرتی ہوں کہ جو ملک قدرتی وسائل سے مالا مال تھا اور جس کے کھیتوں اور کھلیانوں میں اللہ جی کی رحمتیں برستیں تھیں۔ ان کھیتوں اور کھلیانوں کو دوبارہ ہرا بھرا کر دیں۔ یہ درست ہے کہ کسی نادان نے دریاﺅں کا سودا کر دیا۔ تو کیا کوئی عقل والا نہیں آیا کہ اس سودے کا رخ موڑ دیتا۔ کوئی معاہدہ قیامت تک کےلئے نہیں ہوتا۔ ہر معاہدے میں موڑ آتے ہیں۔ دراڑیں پڑتی ہیں۔ لکیریں ابھرتی ہیں۔ کیا کوئی دانشور سیاست میں نہیں آیا.... آو دیکھو ہماری خوبصورت بستیاں پانی کو ترس رہی ہیں۔ کھیتوں اور کھلیانوں کے لبوں پر سفید جھاگ لپٹ رہی ہے۔ سہاگن بنی زمین، ہماری لاپرواہی سے بانجھ بنتی جا رہی ہے۔ جب پاکستان وجود میں آیا تھا تو دیسی گندم کے ڈھیر چانن بکھیر دیتے تھے۔ ہم دوستوں دشمنوں کو گندم ادھار دیتے تھے۔ بیگار دیتے تھے اب ہم دوستوں دشمنوں سے مانگتے پھرتے ہیں.... اب ہم مقروض ہیں۔ محتاج ہیں بے تاج ہیں نرا خراج ہیں....
کیا کوئی ایسا نہیں آیا۔ جو بانجھ زمین کے نالے اور کراہیں سنتا....
دعا ہے کوئی آئے کوئی تو آئے یہ جو زرعی ملک کہلاتا تھا۔ جس کی زمین سونا اگلتی تھی۔ جس کا کسان ہل چلاتے ہوئے گیت گاتا تھا۔ اس کو اس کا زمانہ لوٹا دے۔ کسان کو خوش رکھے۔ کسان کو آسودہ بنائے۔ کسان کو آسانیاں دے.... کسان پوری اسٹیٹ کو روٹی دے گا۔
پر تم نے تو دو روپے کی روٹی آٹھ روپے کی کر دی....
دعا ہے نئے سال میں پاکستان کا ہر بچہ سکول جاتا نظر آئے۔ کم از کم ہر شہری میٹرک تک تعلیم مفت حاصل کرے۔ پھر چاہے رکشہ چلائے۔ آلو چنے بیچے، جوتے پالش کرتا کرتا جوتوں کا کارخانہ بنالے۔
دعا ہے.... نئے ہسپتال کھل جائیں۔ پرانے ہسپتالوں کی مرمت ہو جائے۔ ہر ہسپتال میں دوائیاں کبھی ختم نہ ہوں۔ عوام کو دھکے نہ کھانے پڑیں.... خواص موٹروں تلے نہ کچلے جائیں....
سسٹم ٹھیک ہو جائے۔ سسٹم کہیں نہیں ہے۔ سب عام اٹکل پچو چل رہے ہیں۔
پلاننگ کہیں نہیں.... سب سڑکیں، سب کالونیاں.... سب ادارے.... خود رو تمنا کی طرح اگتے چلے جا رہے ہیں۔
پاکستان کے بہت سے بڑے بڑے آدمی سرکاری سکولوں کے تعلیم یافتہ تھے۔ دعا ہے سرکاری سکولوں کی قسمت پھر سے جاگ جائے۔ وہاں سے سرکار نکل جائے اور علم کو برتری مل جائے۔ غریب امیر کےلئے ایک سا نصاب ہو!
دعا ہے دیانت داری قوم کی عادت بن جائے۔ ہر کوئی اپنی جگہ پر صرف اللہ کے سامنے جواب دہ ہو.... ملاوٹ دوائیوں میں، اشیائے خوردنی میں، پانی میں، مذہب میں، محبت میں ختم ہوجائے فنا ہوجائے کیا دعا مانگنے سے جھوٹ کاخاتمہ ہو سکتا ہے....
کیونکہ جس قوم کے اندر حد سے زیادہ جھوٹ بولنے کی عادت سرایت کر جاتی ہے۔ اس قوم کے ہر کام کے اندر سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ جو جہاں بیٹھا ہے۔ جھوٹی قسمیں کھا رہا ہے....
اخلاقیات کی حد سے گرنا اللہ کی نظر سے گرنا ہے۔ دعا ہے ہمارے نوجوان اپنے کردار کے دھنی بن جائیں۔ دلخراش واقعات جو گزشتہ سال رونما ہوئے.... اللہ کرے کہ آئندہ سال ایسا کوئی واقعہ رونما نہ ہو....
ہرگزرتا ہوا سال آنے والے سال سے کہتا جاتا ہے۔ دھیان رکھنا۔ حضرت انسان کی قسموں اور رسموں پر بھروسہ نہ کرنا۔ اس کی نگاہ جہاں ہوتی ہے۔ خیال وہاں نہیں ہوتا۔ خیال جس جگہ جائے۔ عمل وہاں تک نہیں پہنچ سکتا.... ہر کوئی دوسرے کو نصیحت کرتا ہے۔ اپنے گریبان میں منہ نہیں ڈالتا....
سلف کی دیکھ رکھو راستی اور راست اخلاقی
کہ ان کے دیکھنے والے ابھی کچھ لوگ ہیں باقی!
اس پیارے پاکستان کے اندر وہ لوگ اکثریت میں ہیں۔ جن کی وجہ سے یہ ملک قائم و دائم ہے۔ مگر وہ گمنام رہنا پسند کرتے ہیں۔ کام کر رہے ہیں مگر نام سے بے زار رہتے ہیں۔
وہ سب لوگ پاکستان کی امید ہیں۔ زندگی کا دوسرا مفہوم امید ہے اور بندگی کا دوسرا مفہوم یقین ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو یقین محکم کی زمین پر بیٹھے ہیں۔ انہوں نے ایمان اوڑھ رکھا ہے اور یہ جس شعبے میں بھی ہیں۔ پاکستان کی خدمت کر رہے ہیں۔ یہ جب رب کو قرض حسنہ دیتے ہیں تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہیں ہونے دیتے۔ جب یہ اپنے فرائض میں ہاتھ ڈالتے ہیں۔ تو رب کو اپنے سامنے محسوس کر کے کام شروع کرتے ہیں۔
اور دیکھو 365 دنوں میں تم نے کتنے سانس لئے۔ ان سانسوں کے ساتھ کتنے نوالے کھائے اور کتنے کام کئے۔ اس پاکستان کے اندر ابھی ایسے لوگ ہیں۔ جو ہر سانس کے ساتھ ایک کام کرتے ہیں۔ مگر احسان نہیں کرتے۔
جانے والا سال آنے والے سال سے کہتا جاتا ہے۔ ان کو پہچان کے رکھنا یہ وہ لوگ ہیں۔ جب دونوں ہاتھوں سے مال سمیٹ رہے ہوتے ہیں۔ تو انہیں خدا یاد نہیں آتا۔ یہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھ کے اللہ کے بندوں کو دھوکا دیتے ہیں۔ یہ تخت پر بیٹھے ہوں، اونچی کرسیوں پر متمکن ہوں، کسی بڑے آدمی کے حواری ہوں، بڑی حویلیوں کے شکاری ہوں یا قول و فعل کے مداری ہوں.... یہ دنیا کو بے وقوف بنانے پر قادر ہو جاتے ہیں۔ پھر جب رب کی گرفت میں آتے ہیں تو انصاف کی دہائی دیتے ہیں....
پوچھنا ان سے انہوں نے اپنے زمانے میں انصاف کا منہ دیکھا تھا۔
پرانا سال جاتے جاتے نئے سال سے کہتا ہے۔ یہ نظارہ تم بھی دیکھو گے اللہ نے کہا ہے میں دن رات کا الٹ پھیر کرتا ہوں۔ یہ دولت کے الٹ پھیر میں لگے رہتے ہیں۔
انہوں نے الٹ پھیر کا مفہوم کبھی سمجھا ہی نہیں ہے.... دولت ان کا بھگوان ہے اور یہ بھاگوان ہیں.... تم کبھی ان کے چہرے پر تاسف کی لکیر نہیں دیکھو گے۔ یہ کس ڈھٹائی سے اپنی بداعمالیوں کا دفاع کرتے ہیں۔ تم بھی حیران ہو جاﺅ گے۔ میں بھی حیران جا رہا ہوں....
وہ جو سال نو کا جشن منا رہے ہیں۔ ان سے کہنا اپنے اعمال، کردار اور کارکردگی چھان پھٹک بھی کرو.... پچھلے سال کیا کر سکے، اور آئندہ سال کیا کرنے کا ارادہ ہے....
جشن منا رہے ہیں.... مگر کوئی نیا عہد نہیں کر رہے.... پاکستان کے ساتھ کوئی وعدہ نہیں کر رہے آگے کی پلاننگ کر رہے ہیں۔ جوتشیﺅں سے فالیں نکلوا رہے ہیں۔ ستاروں کا حال جاننا چاہتے ہیں۔ اپنی نیت کا علم ہی نہیں ہے۔ سیانوں نے بارہا کہا۔ نیت سرمراد ہوتی ہے....
مراویں ہزار ہا.... اور نیت میں فتور وہی جارحیت کا غرور!
سب تیرے بندے ہیں....
تیرے لئے ہیں۔ تیرے واسطے سے ہیں، تیرے وسیلے سے ہیں....
در مصطفے پر صدا کر رہی ہوں
نیا سال آیا دعا کر رہی ہوں