اک بہادر آدمی ‘ ہاشمی ہاشمی

خود فریبی کا شکار عمران خان تمام ادب اداب بھلا کر جاوید ہاشمی کو سنگ دشنام کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ جاوید ہاشمی جس کا بانک پن اس بڑھاپے اور بیماری میں بھی قابل دید ہے۔ جاوید ہاشمی کا جرم کیا ہے۔ حق گوئی اور بے باکی ‘ وہ جرات رندانہ جو سیاسی جماعتوں کو اپنی جاگیر سمجھنے والے جمہوریت کے علمبرداروں کو پسند نہیں وہ نواز شریف ہوں یا عمران خان .... جاوید ہاشمی سے ایک جیسا یکساں سلوک کرتے ہیں۔
میدان سیاست میں نصف صدی ‘ سرخرو اور سربلند ہو کر بتا دینے والے جاوید ہاشمی کو کسی عمران خان کے الزام کی کیا پروا ہو گی وہ بھریا میلہ چھوڑنے کے عادی ہیں۔ ذاتی تعلقات پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی راہ میں رکاوٹ بن جائیں تو لکھنے والا کیا کرے‘ گوشہ نشین ہو جائے‘ پیشہ ترک کر دے یا پھر دھڑلے سے جو من میں آئے لکھے اور روزانہ کھاتہ کھول کر انعام پائے اور خلعتیں پہنے اور سیم و زر میں تولا جائے اور سب سے آسان راستہ بھی ہے کہ غیر جانبدار ہو جائے اور اس کالم نگار نے درمیانی راستہ نکالا اور خاموش ہو گیا۔ لکھنا ترک کر دیا اور اپنے آپ کو اپنے ابا جی کی خدمت تک محدود کر لیا۔ یہ معاملہ ستمبر 2016ءتک چلتا رہا۔ دل پر جبر کر کے کھیل تماشے دیکھتا رہا۔ چاہنے والے بڑی درد مندی سے ”زندہ درگور“ ہونے پر سمجھاتے رہے لیکن اس کالم گار نے کسی کی بھی نہ سنی اور پھر اچانک حالات نے غیر متوقع پلٹا کھایا۔ معاصر عزیز ”ایکسپریس“ کی شاندار مراعات یافتہ اور سیون سٹار کارپوریٹ معاملات کو الوداع کہنا پڑا کہ اپنے گھر نوائے وقت واپسی‘ کامل چوتھائی صدی بعد پاکستان اور صرف مادر وطن پاکستان کیلئے قلم بدست واپس لوٹا تو اپنے آپ سے عہد کیا کہ جو سمجھ میں آیا سچ لکھوں گا ‘ گوشہ نشین اور غیر جانبدار نہیں رہوں گا۔ گذشتہ دو ماہ میں اپنے کئے دھرے پر ایسے ایسے ردعمل کا سامنا کیا ہے کہ خدا کی پناہ .... لیکن حوصلہ نہیں ہارا‘ بدل نہیں ہوا میری اماں سمیت سینکڑوں ہاتھ بدست دعا ہیں۔ جاوید ہاشمی میرے مربی اور محترم رہے ہیں ‘ اپنی پیشانی پر آج بھی تمازت کو محسوس کر سکتا ہوں اور ہم اک بہادر آدمی ہاشمی ہاشمی کے نعروں کی دھن پر رقص کیا کرتے تھے۔ طویل وقفوں بعد جب کبھی ملاقات ہوتی ان کا والہانہ پن ختم نہ ہوا۔ اقتدارکے کھیل میں بلندیوں کو چھو لیا لیکن ان کی مروت اور محبت میں کوئی کمی نہ آئی۔ دور سے دیکھتے آواز لگاتے ”خان اعظم کا لشکر کدھر جا رہا ہے“ اور یہ کالم نگار بھی پنجابی تہذیب میں گندھی روایات کے مطابق جھک کر گھٹنوں کو ہاتھ لگاتا ہے۔ وہ ہمیشہ بزرگانہ شفقت سے گلے لگاتے ہیں۔ یہ سب قصے کہانیاں برسوں پرانے ہیں اب تو برسوں بیت گئے‘ ملاقات تک نہیں ہوئی۔
گذشتہ دنوں اپنے پیارے برادر بزرگ جاوید ہاشمی کی نئی آب بیتی ”زندہ تاریخ“ کا ذکر اذکار شروع ہوا تو برادرم طاہر مسعود خان سے نیا نمبر لے کر فون کیا۔ مدتوں بعد بات چیت ہوئی تھی۔ بتایا کہ نوائے وقت میں کالم لکھ رہا ہوں‘ یاد دہانی کیلئے مزید کچھ کہنا چاہتا تھا کہ سید بادشاہ نے فرمایا ”خان اعظم صبح سویرے نہار منہ پانی پیتا ہوں تو سب سے پہلے تمہیں دعا دیتا ہوں‘ وہ خاکسار کے ”پانی سے علاج“ والے ایک مشہور و مقبول کالم کا حوالہ دے رہے تھے جو برسوں پہلے معاصر عزیز ایکسپریس میں شائع ہوا تھا۔ ”اوائل جوانی کا ہیرو“ مربی اور محترم جاوید ہاشمی آج عمران خان صاحب کی توپوں کی زد میں ہے۔ وہی عمران خان جنہیں عملی سیاست میں دھکیلنے والے ٹولے میں یہ کالم نگار بھی شامل تھا۔ شوکت خانم ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھنے کے بعد ملک گیر چندہ مہم میں محمد علی درانی کے پاسبان صف اول میں شامل تھے اور یہ کالم نگار ان کی فکری رہنمائی کر رہا تھا۔ عمران خان سے تعلقات کی بنیادی وجہ برادرم حفیظ اﷲ نیازی تھے۔ عمران کے کزن اور بہنوئی میرے مربی اور سرپرست ‘ ایسے برادر بزرگ کہ ان کی محبتوں اور شفقتوں کے سامنے آج بھی سرنہیں اٹھا سکتا۔ لاہور میاں میر نہر کنارے حفیظ بھائی کا گھر ہمارا اپنا گھر ہوتا تھا۔ جناب عمران خان کی افتاد طبع کی وجہ سے حفیظ بھائی عمران خان کی طرز سیاست کے سب سے بڑے ناقد بن چکے ہیں۔ آج کے نمایاں قلم کار اور کالم نگار حفیظ اﷲ نیازی بھائی بڑے صنعت کار بھی ہیں۔
عمران خان سے ابتدائی اختلاف اس وقت ہوا جب اس نے اسلام کی من پسند اور عجیب و غریب تشریحات و تعبیرات کرنے والے جاوید غامدی کی مدد سے پاسبان کو اپنے ساتھ شامل کرنے کی بجائے ساری قیادت اور کارکنوں کو انفرادی طور پر قافلے میں شامل ہونے پر اڑ گئے۔ لاہور فورٹرس سٹیڈیم میں ”یوم عوام“ کی تقریب میں عمران خان نے پہلی بار عوامی جلسے سے خطاب کیا تھا۔ اس سارے کھیل میں ہمارے دوست منصور صدیقی عمران خان کے ہاتھ آئے تھے اور بعدازاں مدتوں بعد ہمارے خبر رساں ادارے ”انٹرنیوز“ نے باقاعدہ معاہدے کے تحت ”ون ڈے کرکٹ سیریز“ پر عمران خان کے تجزیے اور تبصرے مشرق وسطیٰ میں اپنے کلائنٹ اخبارات میں شائع کرا کے ہزاروں ڈالر عمران خان صاحب کو پیش کئے۔ پاکستان میں یہ کالم ”دی نیشن“ میں شائع ہوئے تھے۔ اس پس منظر میں یہ کالم نگار سوچتا رہا کہ کیا کروں ‘ خاموش رہوں ‘ غیر جانبدار ہو جا¶ں یا اصل معاملات سامنے لا¶ں اور آج مصلحت ہار گئی۔ غیر جانبدارانہ خاموشی نے شکست کھائی اور اپنی سچائی لے کر خاکسار حاضر ہے۔
عمران خان نے کوئی دید لحاظ کئے بغیر سید بادشاہ کو دماغ کی خرابی اور پاگل پن کا طعنہ دیا ہے کہ 65 سال بعد اس طرح کے عوارض لاحق ہو ہی جایا کرتے ہیں ‘ جبکہ عمران خان‘ ہاشمی صاحب سے صرف ایک دو برس چھوٹے ہوںگے۔ ایک زود رنج تبصرہ نگار نے اس پر پھبتی کسی ہے کہ 64 سالہ عمران خان نے پینسٹھ 65 سالہ جاوید ہاشمی کو فاتر العقل قرار دیا ہے۔ اب عمران خان جاوید ہاشمی پر سنگ الزام سے بڑھ کر سنگ دشنام برسا رہے ہیں۔
ہر اک بات پہ کہتے ہو کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
عمران خان صاحب اس کائنات میں صرف آپ ہی راست گو ہیں‘ سچے ہیں اور راہ راست پر ہیں۔ وہ وفا شعار جمائما خان وہ وجیہہ الدین صدیقی جیسا بہادر اور خود دار جج‘ وہ حفیظ اﷲ نیازی جیسا مہربان بھائی اور بہنوئی اور وہ تہجد گزار عمر فاروق اور ہمارا پیار ”گولڈی“ یہ سب حرف غلط تھے اور صرف آپ سچے تھے نہیں جناب نہیں ایسا نہیں تھا۔ معاملہ یہ ہے کہ
تنہا کر گیا تجھے منفرد رہنے کا شوق
اب اکیلے بیٹھ کہ یادوں کے منظر دیکھنا
جناب عمران خان صاحب آپ کو دولت سے مرعوبیت اور خود پرستی سے ڈوبی انانیت پسندی اور نرگسیت ایسا سراب ہیںجو اپنے سراب کو جاگتی آنکھوں خواب دیکھنے کے وہم میں مبتلا کر دیتی ہیں اور آپ کے ساتھ یہی کچھ ہو رہا ہے۔ کپتان صاحب ابھی بھی وقت ہے ہوش میں آئیے۔ قدرت آپ پر مہربان رہی ہے۔
نام نہاد اشرافیہ نہیں‘ عوام سے ناطہ جوڑے رہتے جاوید ہاشمی کی عظمت ٹوٹ ٹوٹ کر اس مرد بزرگ پر برس رہی ہے کوئی سنگ الزام یا سنگ دشنام اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا‘ آپ اپنی ادا¶ں پر غور کریں کہ ابھی مہلت عمل باقی ہے۔ الحذر مہلت ابھی ہے۔

محمد اسلم خان....چوپال

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...