بھارت کو پاکستان مخالف اقدامات میں ایک بار پھر منہ کی کھانا پڑ گئی اور اسے شرمندگی اٹھانا پڑی جب اقوام متحدہ میں پاکستان پر پابندی لگانے کی بھارتی قرارداد مسترد کر دی گئی۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان مخالف قرارداد کا مسترد ہونا اہم فورم پر بھارتی ایجنڈا مسترد ہونا ہے۔ ترجمان کے مطابق بھارت کی طرف سے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کےلئے قرارداد جمع کرائی گئی جس میں پاکستان پر داعش اور القاعدہ کی مدد کا الزام لگایا گیا جو سلامتی کونسل کی 1267 ویں پابندیوں کی کمیٹی نے مسترد کر دی۔ قرارداد مسترد ہونے سے اہم فورم کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی بھارتی کوشش ناکام ہوگئی۔ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کرانے،دہشت گردوں کی معاونت کرنے،اور انہیں وسائل فراہم کرنے میں ملوث ہے۔ پاکستان بھارت کی ریاستی معاونت سے ہونے والی دہشت گردی کا شکار ہے۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور اس کا اعترافی بیان اس کا واضح ثبوت ہے۔ ترجمان نے کہا کہ بھارت بے بنیاد الزام تراشی کے ذریعہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کے فروغ میں اپنے کردار کو چھپانا چاہتا ہے۔ بھارت کی مسعود اظہر پر پابندیوں کی قرارداد چین نے دو روز قبل تیسری بار ویٹو کر دی تھی جس سے بھارت کو بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
بھارت کا پاکستان کے بارے میں ہمیشہ سے جارحانہ رویہ رہا ہے۔ اس نے کبھی پاکستان کو دل سے تسلیم کیا نہ اسے برداشت کرنے پر تیار ہے۔ بنیا لیڈر شپ نے تقسیم کے موقع پر پاکستان کیلئے مشکلات کھڑی کرکے پاکستان کے نہ چلنے کے زعم میں مبتلا ہو کر امید لگالی کہ پاکستان مصائب و مسائل سے گھبرا کر گھٹنوں کے بل گر کر بھارت سے اپنی واپسی کی بھیک مانگے گا مگر پاکستان ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط اور مستحکم ہوتا چلا گیا۔ پاکستان کا اس طرح اپنے پاﺅں پر کھڑا اور مضبوط ہونا بھارت کے سینے پر سانپ لوٹنے کی مانند تکلیف دہ رہا ہے۔ وہ پاکستان کو اپنی جارحیت اور سازشوں سے تباہ و برباد کرکے رکھ دینا چاہتا ہے۔
بھارت پاکستان کے مقابلے میں کئی گنا بڑا ملک ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں بڑی منڈی ہونے کے ناطے بھارت دنیا کیلئے زیادہ کشش رکھتا ہے اور پھر بنیئے کی مکاری اپنی مثال آپ ہے۔ جھوٹ‘ دغا‘ فریب اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے ڈرامہ بازی اسکی گھٹی میں پڑی ہے۔ اپنے جھوٹے اور بے بنیاد پراپیگنڈے سے وہ عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے جس میں وہ کئی بار کامیاب بھی ہوچکا ہے۔ دنیا کے بااثر ممالک کچھ بھارت کے پاکستان کیخلاف گمراہ کن پراپیگنڈے اور کچھ بھارت کے ساتھ وابستہ مفادات کے باعث پاکستان کیلئے معاندانہ‘ نہ ہی سہی‘ جانبدارانہ رویوں کا اظہار ضرورکرتے نظر آتے ہیں۔
پاکستان کا پالا ایک شاطر‘ عیار اور مکار دشمن سے پڑا ہے‘ اسے دنیا کے کئی طاقتور اور عالمی فیصلوں پر اثرانداز ہونیوالے ممالک کی تائید حاصل ہے۔امریکی صدر‘ وزیر دفاع‘ برطانوی وزیراعظم‘ فرانسیسی صدر اور ان ممالک کے دیگر وزراءبھارت کے دورے کے موقع پر پاکستان کیخلاف بھارتی زبان میں گفتگو کرنے کو شاید اپنا منصبی فرض سمجھتے ہیں۔ ایسے حالات اور دشمن کے مقابلے کیلئے پاکستان کو اس سے اتنے گنا زیادہ محنت‘ فعالیت اور جدوجہد کی ضرورت ہے جتنے گنا بھارت پاکستان سے بڑا ملک ہے۔ گو بھارت کو امریکہ جیسے طاقتور ممالک کی تائید و حمایت حاصل ہے تاہم پاکستان کے ساتھ چین‘ ترکی اور سعودی عرب جیسے اہم ممالک کھڑے ہیں۔ روس بھی بھارت سے دوری اختیار کرکے پاکستان کے قریب آرہا ہے۔
کامیاب خارجہ پالیسی کا دارومدار فعال سفارتکاری اور سفارتکاروں‘ دفتر خارجہ اور حکومت و پارلیمان کی محنت شاقہ پر بھی ہے جس کے باعث کئی بار بھارت کی پاکستان کیخلاف سازشیں ناکام بنائی جاچکی ہیں۔ اسکی تازہ ترین مثال اقوام متحدہ میں پاکستان کیخلاف پابندیاں لگانے کی قرارداد کا مسترد ہونا ہے۔ اقوام متحدہ میں رسوائی اور بے توقیری سے بھارت غصے سے پاگل ہوا جارہا ہے۔ وہ اس بے عزتی پر خاموش نہیں بیٹھے گا‘ اس نے پاکستان کے مفادات کو زک اور سفارتی سطح پر نقصان پہنچانے کیلئے سازشوں کی تیاری شروع کردی ہوگی۔ اسکی پاکستان دشمنی کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ اس نے نئے سال کے پہلے روز بھی پاکستان کیخلاف جارحانہ اقدامات سے گریز نہیں کیا اور نئے سال کا تحفہ کنٹرول لائن پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کی صورت میں دیا جس سے کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا البتہ پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھارت کا خبث باطن کھل کر سامنے آگیا۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی بربریت سے مظفروانی کی شہادت کے بعد اب پاکستان کی سفارتکاری متحرک ہورہی ہے۔ یہ ٹمپو جاری رہتا ہے تو کشمیریوں کو آزادی صبح کی نوید جلد ملنے کا یقین ہے۔
چین بعض اوقات پاکستان کے مفادات کی خاطر اس حد تک بھی چلا جاتا ہے‘ جہاں تک خود پاکستانی حکام اور حکمران بھی نہیں جاپاتے۔ مسئلہ کشمیر پر چین پاکستان سے بھی زیادہ سخت موقف رکھتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے شہری کیلئے چین میں انڈین ویزہ قبول نہیں کیا جاتا‘ مقبوضہ وادی کے شہری کو سادہ کاغذ پر دی گئی درخواست پر ویزہ جاری کردیا جاتا ہے۔ چین ہی نے مولانا مسعود اظہر کو اقوام متحدہ میں دہشت گرد قرار دلانے کی بھارتی کوشش کو ویٹو اختیار کا استعمال کرتے ہوئے ناکام بنایا ہے۔ چین نے بھارت کی یہ تیسری کوشش ناکام بنائی ہے‘ بھارت مزید کوششیں بھی کر سکتا ہے۔ اسے منہ توڑ جواب پاکستان کی ٹھوس اور مضبوط خارجہ پالیسی سے مل سکتا ہے۔ یہاں سرتاج عزیز کی امرتسر میں ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس میں شرکت کا تذکرہ بھی برمحل ہوگا‘ جس کی ایک حلقے کی طرف سے کانفرنس سے قبل مخالفت کی جارہی تھی اور بھارت کی طرف سے ناروا سلوک کے باعث کانفرنس کے بعد زیادہ شدت سے مخالفت کی گئی‘ حالانکہ اس غیرسفارتی‘ غیراخلاقی اور غیرقانونی رویے سے خود بھارت دنیا کے سامنے بے نقاب ہوا۔ اس کانفرنس میں مشیر خارجہ کی شرکت کے باعث بھارت کانفرنس کے اعلامیہ میں پاکستان کیخلاف ایک لفظ شامل کرانے میں ناکام رہا‘ یہی اس کانفرنس میں پاکستان کی بڑی کامیابی تھی جو مشیر خارجہ کی شرکت سے ممکن ہوسکی۔
آج دنیا بدل رہی ہے‘ رویوں میں تبدیلی آرہی ہے‘ پالیسیوں پر نظرثانی ہورہی ہے۔ آج کی امریکی انتظامیہ اپنے ہی نومنتخب صدر کیخلاف محاذآرائی میں مصروف ہے۔ اس نے بیک جنبش قلم 37 روسی سفارتکاروں کو نکال باہر کیا مگر حیران کن طور پر روس نے جواب میں ایک بھی امریکی سفارتکار کو بے دخل نہیں کیا۔ ٹرمپ اور پیوٹن قدیم دشمن ممالک کو قریب لارہے ہیں۔ سلامتی کونسل میں پہلی مرتبہ اسرائیل کیخلاف قرارداد منظور ہوئی۔ امریکہ نے کسی بھی فریق کا ساتھ دینے کے بجائے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جبکہ اسرائیل امریکہ سے ویٹو کی توقع کررہا تھا‘ وہ امریکہ کے رویے پر شدید غصے میں ہے۔ بدلتے حالات میں پاکستان کو اقوام متحدہ میں 68 سال سے پڑی قراردادوں پر عمل کیلئے اپنی کوششیں تیز تر کرنا ہونگی‘ اس کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ دنیا کو اپنے جائز موقف پر قائل کرنے کیلئے اگر بھارت کے ساتھ قطع تعلق نہیں کرتے تو اسکے ساتھ تجارت تو ختم کردینی چاہیے جو کبھی منافع بخش نہیں رہی۔ اسکے ساتھ ساتھ بھارت کی پاکستان میں مداخلت کے مصدقہ اور ناقابل تردید ثبوت بھی عالمی برادری کے سامنے رکھتے ہوئے اس کیخلاف پابندی لگانے کی کوشش کرنی چاہیے۔