سی پیک اورعدلیہ کوچلنے دیں!

Jan 03, 2017

منیر احمد خان

پاکستان میں لیڈرز انتہائی خطرناک کھیل رہے ہیں چاہے عدلیہ کامعاملہ ہویاصوبوں کایاسی پیک کسی کو ملک کی فکرنہیں۔صوبوں کو اکٹھا رکھنے سے کوئی غرض نہیں۔ عدلیہ کی عزت احترام سے کوئی سروکار نہیں۔ سی پیک کو اپنی مرضی سے چلانے کی اور فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ وفاقی وزیر چوہدری احسن اقبال زبردست خیالات کے مالک ہیں، سی پیک کو لے کر چلنا ان کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ وہ اس منصوبے کو نہ صرف شفاف رکھنا چاہتے ہیں بلکہ چاروں صوبوں اورگلگت بلتستان کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔ آج کل کی تمام بُری خبروں اور لیڈروں کے خطرناک کھیل میں اچھی خبر اور ہوا کا تازہ جھونکا یہ آیا کہ احسن اقبال کی سربراہی میں وزیراعلیٰ KPK، سندھ، بلوچستان، گلگت بلتستان اور پنجاب کے وزیر سرمایہ کاری کے ساتھ چین پہنچ گئے اور چین کو احساس دلایا کہ سی پیک کے معاملہ پرتمام پاکستان ایک ہے اور مکمل اتفاق سے چل رہے ہیں۔ دوسری طرف سی پیک کے دشمنوں کو بھی پیغام دیاگیاکہ وہ ہمارے درمیان نفاق نہیں ڈال سکتے۔ پہلی دفعہ اتنی بڑی نمائندگی کا وفد چین گیا تھا اور مشترکہ تعاون کمیٹی نے گوادر بندرگاہ کو اپ گریڈ اور ماسٹر پلان پر ایک سال میں عملدرآمدکرنے، پشاورکا کراچی ریلوے ٹریک کی اپ گریڈیشن کو تیزکرنے، چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں ریل ماس ٹرانزٹ منصوبے لگانے اور جنوب تا شمال ٹرانسمیشن لائن منصوبے لگانے کی منظوری دی۔شاہراہ قراقرم کے قابل مرمت حصے کی تعمیرشروع کرنے اورڈیرہ اسماعیل خان سے ژوب تک سڑک کی تعمیرکے منصوبے کی بھی منظوری دی۔کراچی سرکلر ریلوے،کیٹی بندرگاہ اورخصوصی اقتصادی زونزکے پروجیکٹس کو سی پیک میں شامل کیا گیا۔ چوہدری احسن اقبال اس بات پربڑے خوش تھے کہ ملک کے تمام نمائندے ایک ساتھ چین گئے اورملک کے مستقبل کوبہترکرنے کیلئے دس ہزارمیگاواٹ بجلی پیداکرنے کے منصوبے کی منظوری دی۔اس کے علاوہ ملتان تاسکھر موٹروے اورقراقرم ہائی وے کی اپ گریڈیشن،گوادرسے سوراب تک شاہراہ مکمل کرنا اور دیگرمنصوبے شامل ہیں۔ احسن اقبال جیسی پُرعزم شخصیت کی موجودگی میں یقین ہے کہ ہم سی پیک جیسے ملک کی تقدیربدلنے والے منصوبے کوآگے بڑھاسکیں گے کیونکہ خطرے توبہت زیادہ ہیں۔آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان، اسفند یار ولی اورحکومتی اتحادی پارٹیاںبلیک میل کرنے اورملک دشمنوںکوخوش کرنے کیلئے نت نئے بیانات دیتے رہتے ہیں۔ قومی معاملات پراتفاق رائے ہونا چاہئے لیکن ہمارے لیڈرز ذاتی مفادکیلئے ملک اور قومی اداروں کو داﺅ پر لگا دیتے ہیں۔ سی پیک ایک ایسا منصوبہ ہے جس پر قومی اتفاق رائے سے چلنا چاہئے اورکسی قسم کا انتشار نہیں پیدا کرنا چاہئے اسی طرح ہمارے لیڈرز عدالتی معاملات میں خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) ہو یا پیپلزپارٹی یا تحریک انصاف اپنی مرضی کا انصاف چاہتے ہےں اور عدالتوں کودباﺅمیں رکھناچاہتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کی جانب سے ان بیانات کی کیا ضرورت تھی کہ پیپلزپارٹی کا لیڈر ہوتا تو فیصلہ ہو جاتا۔ میں سوال کرتا ہوں کہ چیف جسٹس عبدالمجید ڈوگرکی موجودگی میں کیا ہوتا رہا۔آصف زرداری کو صدر بنانے کیلئے گریجویشن کی شرط سپریم کورٹ نے ختم کی تھی توکیا وہ ٹھیک تھا؟ اسی طرح مسلم لیگ (ن)کے لیڈروں کے بیانات انتہائی غلط تھے کہ نومبرگزرگیا (جنرل راحیل کی رخصتی) دسمبر بھی گزر جائیگا (چیف جسٹس جمالی کی رخصتی ) جبکہ تحریک انصاف نے بھی عدلیہ پر بڑی تنقیدکی اور افسوس کا اظہار کیا تھا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ سابق چیف جسٹس جمالی نے مناسب طریقہ کار اختیار نہیں کیا۔ انہیں چاہئے تھاکہ وہ مقدمہ شروع ہی نہ کرتے اور دوسرا بنچ بناتے۔ جب انہوںنے فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے تھے اورکیس اپنے آخری مراحل میں داخل ہو رہا تھا تو پھر چھٹیوں پر جانے اور الوداعی تقریب کی کیا ضرورت تھی۔جہاں تک میاں ثاقب نثار پر سوشل میڈیا میںتنقیدکا تعلق ہے تواس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ وزیراعظم نواز شریف اور صدر ممنون حسین کے ساتھ ایک تصویر کو سوشل میڈیا پر جاری کیا گیا جس میںبتایاگیاکہ درمیان والاشخص میاںثاقب نثار ہے حالانکہ وہ اقبال ظفر جھگڑا ہے اور تصویر بھی پرانی ہے۔ یہ کوئی طریقہ نہیں کہ جھوٹے الزامات لگائے جائیں۔ حکومتی اور اپوزیشن کی طرف سے چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکے حوالے سے کسی قسم کی خبروں کاکوئی تُک نہیں تھا میں نے سب سے پہلے کہا تھاکہ نئے چیف جسٹس اپنی غیرجانبداری ہر صورت قائم رکھیں گے اور پانامہ لیکس بنچ میں وہ خود شامل نہیں ہونگے۔کل انہوںنے اپنے حلف کے بعدسب سے پہلا جو حکم دیا وہ نئے بنچ کا قیام ہے جس میں سندھ اورKPKکے ایک ایک جج کو شامل کیا گیا ہے جبکہ جسٹس امیر مسلم ہانی کو بنچ میںاس لئے شامل نہیں کیاگیاکہ وہ مارچ میں ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔ شکر ہے کہ حکومت اور اپوزیشن نے نئے بنچ کا خیرمقدم کیا ہے اور بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ عدالتوںکو دباﺅ میں نہیں ڈالنا چاہئے عدالتیں آزادی سے فیصلے کرینگی تو ملک آگے چلے گا۔ تحریک انصاف کو چاہئے کہ وہ مکمل بھروسے کے ساتھ مقدمہ چلائیں اور یقین کر لیں کہ نیا بنچ کسی کی فیور نہیں کرے گا چاہے فیصلہ نواز شریف کے حق میں ہو یا خلاف۔ تحریک انصاف نے جس طرح دھاندلیوں کے متعلق چیف جسٹس ناصرملک کا فیصلہ قبول کیا تھا اس طرح تمام پارٹیوں کو عہدکرنا چاہئے اور عدالت کو یقین دلانا چاہئے کہ ہم فیصلے کوخوش دلی کے ساتھ قبول کرینگے اس سے عدالت اور جسٹس کھوسہ کی سربراہی میں قائم بنچ مزید طاقتور ہو گا۔ بیانات دیکر عدالت کو بے وقعت بھی نہیں کرنا چاہئے۔ سرکاری پارٹی، اپوزیشن اور سوشل میڈیا کو ججوں کی کردارکشی بندکرنی چاہئے۔ اگرتمام جج اسی طرح دباﺅمیں آکربنچوں میں بیٹھنے سے انکارکرتے رہے تو پھرکیا ہوگاکون فیصلہ کرےگا۔ سابق صدرآصف زرداری کی حالت کا اندازہ کر لیں کہ وہ 18ماہ کی خودساختہ جلاوطنی کے بعد واپس آئے تو ایسا تاثر دے رہے تھے کہ وہ بڑی جدوجہد اور فتح کرکے آئے ہیں۔ پی پی پی کاکوئی لیڈرکہتا ہے کہ وہ بیماری کی وجہ سے گئے تھے اوراب ڈاکٹروں نے سفرکی اجازت دے دی ہے۔ کیوں قوم کوبیوقوف بنایا جا رہا ہے کیا لندن اور امریکہ کے دورے ڈاکٹروں کی اجازت سے ہو رہے تھے۔ آصف زرداری نے واپس آکرکیا معرکہ مار لیا ہے الیکشن لڑنے کا اعلان؟ بلاول کے چار نکات اور تحریک چلانے کا اعلان کہاں گیا؟کبھی بلاول کوسیاست اوربڑے بڑے بیانات کی اجازت دے دی جاتی ہے توکبھی پیچھے ہٹا دیا جاتا ہے۔ اب پھر پیچھے ہٹا دیا گیا ہے۔ سنا ہے کہ بلاول آرام کرنے کیلئے دوبئی چلا گیا ہے۔ اس طرح یہ کیا سیاست ہے کہ آپ اندرخانے نواز شریف سے ملے ہوں اور بیانات دیتے جارہے ہوں کہ مفاہمت ختم سبق سکھائینگے ایک اور لڑائی کیلئے تیار ہو جائیں۔ یہ کیا بیانات ہیں ۔کیوں قوم کو دھوکہ دے رہے ہیں۔

مزیدخبریں