’’ مَینوں تے نئیں لگدا ، تُوں "Mental Case" ماہِیا!‘‘

مرزا غالب کی جب اپنے محبوب / دوست سے ناراضی ہوگئی تو اُنہوں نے پیغام بھجوایا تھا کہ …؎
’’ قطع کِیجے نہ ، تعلق ہم سے
کچھ نہیں ہے تو ، عداوت ہی سہی‘‘
پتہ چلا کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان کا اُن کی تحریک کے سابق صدر جناب جاوید ہاشمی کا قطع تعلق ’’ عداوت‘‘ کی صُورت اختیار کر گیا ہے ۔ اِس عداوت کا عمران صاحب کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا لیکن مسلم لیگ ن میں دوبارہ شامل ہونے کے لئے ’’ پَر تولنے والے ‘‘ ہاشمی صاحب کے مسلم لیگی حلقوں میں "Numbers" بہت بڑھ رہے ہیں ۔ ہاشمی صاحب کو ابھی مزید کِتنے نمبروں کی ضرورت ہوگی؟۔ مسلم لیگ ن کے نہال ہاشمی صاحب ہی بتا سکتے ہیں ۔ جاوید ہاشمی صاحب کی مسلم لیگ میں شمولیت سے کِس طرح کے لوگ نہالؔ ہو جائیں گے ؟ ۔ اُس کا بھی پتہ چل جائے گا ۔
جاوید ہاشمی صاحب نے میڈیا کے ذریعے عوام اور خواص کو آگاہ کردِیا تھا کہ ’’ عمران خان نے جوڈیشل مارشل لاء نافذ کرانے کی کوشش (سازش) کی تھی‘‘۔ ڈگری اصلی ہو یا نقلی ، ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے ‘‘ کے فارمولے کے تحت مارشل لاء تو مارشل لاء ہی ہوتا ہے۔ ’’ جوڈیشل ہو ‘‘ یا ’’نان جوڈیشل‘‘ ؟۔ عمرا ن خان نے جاوید ہاشمی کے انکشاف کا بہت بُرا منایا اور کہا کہ "Hashimi Is Not Mentally Sound" ( ہاشمی صاحب ذہنی مریض ہیں ) ۔ عُمر کے اِس حِصّے میں اُن کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں رہا ‘‘۔ جواب میں ہاشمی صاحب نے کہا کہ ’’ عمران خان کا اور میرا "Mental Dope Test" (دماغی اور نشے کا ٹیسٹ ) کرایا جائے ۔ پاگل خانے کی رپورٹ آگئی تو قوم کی کپتان سے جان چُھوٹ جائے گی!‘‘۔ دونوں لیڈروں میں لفظوں کی یہ جنگ کب تک جاری رہے گی ؟ ۔ ’’شاعرِ سیاست‘‘ نے خود کلامی کے انداز میں کہا کہ …؎
’’ کرتے رہیں گے ، کب تلک پبلک کو تنگ اور
جاری رہے گی دونوں میں لفظوں کی جنگ اور ‘‘
جاوید ہاشمی صاحب کا کہنا ہے کہ ’’ مَیں 67 سال کا ہُوں اور عمران خان 65 سال کے ۔ وہ عُمر میں مجھ سے 2 سال چھوٹے ہیں ۔ ’’وہ میرے سامنے بات کرنے کی ہمت نہیں رکھتے‘‘ ۔ یہ کیا فلسفہ ہے ہاشمی صاحب!۔ وزیراعظم میاں نواز شریف بھی تو 67 سال کے ہیں ۔ جب عمران خان اُن کے سامنے بات کرنے کی ہمت کرنے کو تیار ہیں تو آپ کے سامنے کیوں نہیں ؟۔ یہ الگ بات کہ میاں صاحب اور خان صاحب کا آمنا سامنا ہی نہیں ہوتا ۔ عمران خان تو کبھی کبھی قومی اسمبلی کے ایوان میں تشریف لے بھی جاتے ہیں لیکن میاں صاحب کو تو اپنا ’’قیمتی وقت ‘‘ بچانے کی عادت پڑ گئی ہے ۔ قومی اسمبلی کے ایوان میں اُن کی حاضریاں کم بھی ہو جائیں تو بھی کالجوں اور یونیورسٹیوں کے رولز کے مطابق اُن کے "Lectures Short" ہونے کا تو مسئلہ ہی پیدا نہیں ہوگا ؟ ۔
پُرانے زمانے میں رواج تھا کہ جب کوئی شخص 60 سال سے اوپر کا ہو جاتا تھا تو کہا جاتا تھا کہ ’’ فلاں شخص سٹھیا گیا ہے ۔ اُس کی عقل ماری گئی اور اُس کے حواس بجا نہیں رہتے ‘‘ ۔ ایسے لوگوں کے لئے اُستاد شاعر راحتؔ نے کہا تھا …؎
’’ کچھ خیر ہے بڑے میاں ، سٹھیا گئے ہو کیا
لڑکوں کے ساتھ کھیلنے تم گِڑیاں چلے !‘‘
عمران خان 65 سال کے ہیں ۔ ہاشمی صاحب 67 سال کے ۔ جنابِ آصف زرداری 61 سال 6 ماہ کے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمن 63 سال اور سات ماہ کے اور شیخ رشید احمد 66 سال کے ۔ اُن سب کے بارے میں تو نہیں کہا جاسکتا کہ وہ سٹھیا گئے ہیں۔ ہاشمی صاحب کے سِوا سب کے سب اپنے ’’قول و فعل ‘‘ سے ساٹھے پاٹھے لگتے ہیں ۔ بعض سیاستدانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’’ وہ کسی عُمر میں بھی بوڑھے نہیں ہوتے ‘‘ ۔ کسی پنجابی شاعر کے بقول …؎
’’ دِل ہونا چاہِیدا جوان
تے عُمراں چّ کِیہ رکھّیا؟‘‘
’’بابائے جمہوریت ‘‘ نوابزادہ نصر اللہ خان آخر دم تک ( 87 سال کی عُمر تک ) سیاست میں سرگرم رہے ۔ بہت ہی چاق و چوبند تھے ۔ مرزا غالب کا یہ شعر اُن پر صادق نہیں آتا تھا کہ …؎
’’ گو ہاتھ میں جُنبِش نہیں ، آنکھوں میں تو دَم ہے
رہنے دو ابھی ، ساغر و مِینا مرے آگے!‘‘
یہ وضاحت ضروری ہے کہ بابائے جمہوریت کو ’’ ساغر و مِینا کا کوئی شوق ‘‘ نہیں تھا۔البتہ اُنہیں اپنے مخالف سیاستدانوں کی خدمت میں طنزیہ اشعار پیش کرنے کا شوق ضرور تھا ۔ ایک دَورمیں اُنہوں نے وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو مخاطب کرتے ہُوئے کہا تھا …؎
’’ ہاتھوں پہ کوئی داغ ، نہ دامن پہ کوئی چِھینٹ !
تُم قتل کرو ہو! کہ کرامات کرو ہو؟‘‘
اب رہا جناب ِ جاوید ہاشمی کا یہ مطالبہ کہ ’’ میرا اور عمران خان کا دماغی اور نشے کا ٹیسٹ کرایا جائے ؟‘‘ ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ ٹیسٹ پاکستان کے کسی سرکاری پاگل خانے ( Mental Hospital) میں کرایا جائے گا ؟ اگر اُس پاگل خانے کے ڈاکٹر صاحبان نے جناب عمران خان کو ’’دماغی مریض اور نشئی ‘‘ قرار دے دِیا تو کیا خان صاحب اُن کی رپورٹ کو تسلیم کر لیں گے ؟ یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ رپورٹ جناب جاوید ہاشمی کے خلاف ہو؟ کیونکہ مسلم لیگ ن کے جو لوگ جناب جاوید ہاشمی کی مسلم لیگ میں دوبارہ شمولیت کے خلاف ہیں وہ بھی تو ڈاکٹر صاحبان کی رپورٹ پر اثر انداز ہوسکتے ہیں ؟۔
ایک پوائنٹ یہ بھی ہے کہ اگر جناب عمران خان یہ مطالبہ کریں کہ ’’ میرا اور جاوید ہاشمی صاحب کا معائنہ صِرف شوکت خانم ہسپتال میں کرایا جائے تو کیا ہاشمی صاحب یہ بات مان لیں گے؟۔ یہ بات بھی تحقیق طلب ہے کہ کیا شوکت خانم ہسپتال میں ’’ دماغی اور نشئی‘‘ مریضوں کے علاج کا انتظام ہے یا نہیں ؟ میرے دوست بابا ٹلّ نے کل میرے خواب میں آ کر مجھے یہ نُسخہ بتایا کہ ’’ کیوں نہ اقوامِ متحدہ کے ادارہ " world health organization" کے تحت دونوں قائدین کے ’’ دماغی اور نشئی ‘‘ ہونے کے بارے میں صحیح رپورٹ حاصل کرنے کے لئے کسی غیر جانبدار مُلک کے "Mental Hospital" میں اُن کا ٹیسٹ کرایا جائے؟‘‘ لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوگا کہ جناب عمران خان اور جاوید ہاشمی صاحب کو بیرون ملک لے جانے ، اُن کے قیام و طعام ، ڈاکٹروں کی فیس اور ادویات کے اخراجات کون برداشت کرے گا؟۔ کیا حکومتِ پاکستان یا دونوں ’’الزام اِلیہ مریضانِ سیاست ‘‘ ۔ یا بیت اُلمال سے امداد لی جائے گی۔ بہر حال ’’رپھڑ ‘‘تے بوہت ہی پَوے گا ! ۔
مَیں تصّورمیں دیکھ رہا ہُوں کہ جب ہمارے دونوں ہی ’’ مُخلص قائدِین ‘‘ رضا کارانہ اور باہمی سمجھوتے کے بعد جدید ترین آلات اور ماہر ترین ڈاکٹروں کی موجودگی میں اپنا ٹیسٹ کرانے کے لئے اپنے اپنے آرام دہ اور قیمتی "Beds" پر دراز ہوں گے تو کوئی نرس اُن کی خوبصورتی اور "Faces" کو دیکھ کر اور اُن کی ابتدائی رپورٹس پڑھ کر کیا کہے گی ؟۔ ’’شاعرسیاست‘‘ نے اُس کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہُوئے کہا ہے کہ… ؎
’’ کِنّا سوہنا تیرا "Face" ماہِیا!
مَینوں تے لگدا نئیں

ای پیپر دی نیشن