کوئٹہ (این این آئی+ آئی این پی+ نوائے وقت رپورٹ) بلوچستان میں حکومتی اتحادیوں میں اختلافات شدت اختیار کر گئے۔ اسمبلی کے 14 ارکان نے وزیراعلیٰ نواب ثنا ء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد اسمبلی میں جمع کرا دی۔ تحریک (ق) لیگ، جمعیت علماء اسلام (ف)،بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل ) ،عوامی نیشنل پارٹی ، نیشنل پارٹی، مجلس وحدت مسلمین کے ارکان کے دستخطوں سے جمع کرائی گئی ہے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق وزیر ماہی گیری بلوچستان میر چاکر سرفراز ڈومکی مستعفی ہو گئے۔ ذرائع کے مطابق انہوں نے اپنا استعفے وزیراعلی بلوچستان ثناء اللہ زہری کو بھجوا دیا۔ مزید برآں وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی کووزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری نے برطرف کردیا۔ سرفراز بگٹی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کیا ہے کہ میری برطرفی کی خبریں بے بنیاد ہیں۔میں کل ہی گورنر بلوچستان کواپنا استعفی پیش کرچکا ہوں اس لئے برطرفی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ (ق) لیگ کے رکن صوبائی اسمبلی سابق ڈپٹی سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو اور مجلس وحدت مسلمین کے رکن آغا محمد رضا نے بلوچستان اسمبلی میں آئین کے آر ٹیکل 136کے تحت وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتما د جمع کرائی اور درخواست کی تحریک کو اسمبلی میں پیش کر نے کیلئے دن مقررکیا جائے ۔ تحریک پر حکومتی اتحادی جماعت ق لیگ کے ارکان میر عبدالقدوس بزنجو ،میر عبدالکریم نوشیروانی، ڈاکٹر رقیہ ہاشمی ،وزیر اعلیٰ کے سپیشل اسسٹنٹ میر امان اللہ نو تیزئی، نیشنل پارٹی کے رکن میر خالد لانگو ، مجلس وحدت المسلمین کے آغا محمد رضا،اپوزیشن جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے سابق وزیر اعلیٰ سردار اختر مینگل ،میر حمل کلمتی ، جمعیت علماء اسلام کے ارکان شاہد ہ رئوف، حسن بانو رخشانی، عبدالمالک کاکڑ، خلیل الرحمن دمڑ، عوامی نیشنل پارٹی کے رکن اور ڈپٹی اپوزیشن لیڈر انجینئر زمر ک خان اچکزئی ،آزاد رکن نوابزادہ طارق مگسی کے دستخط ہیں یہ تحریک ایسے وقت میں جمع کرائی گئی جب وزیر اعلی نواب ثناء اللہ زہری بیرون ملک دورے پر تھے۔ عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کی ا طلاع فوری طور پر انہیں بیرون ملک دی گئی اور وہ اپنا دورہ مختصر کر کے وطن واپس پہنچ گئے اور انہوں نے فوری طور پر اتحادی جماعتوں کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کے بعد کوئٹہ میں سیاسی سرگرمیاں کا آغاز عروج پر پہنچ گئی ہیں۔ دریں اثناء میر عبدالقدوس برنجو ‘ آغا محمد رضا نے سیکر ٹری اسمبلی کے پاس تحریک جمع کرانے کے بعد صحافیوں سے مختصر بات چیت کر تے ہوئے کہا وزیر اعلیٰ بلوچستان نے اپنی مخلوط حکومت کی تشکیل کے بعد وعدے پورے نہیں کئے، تحریک جمع کروانا ہمارا جمہوری حق تھا جسے استعمال کیا۔ ہمیں کسی بھی قوت کی حما یت حاصل نہیں۔ ہمارے تحفظات تھے جنہیں گزشتہ ڈھائی سالوں میں دور نہیں کیا گیا ہم تحریک کی کامیابی کے لئے تمام جماعتوں سے رابطے کریں گے۔ ق لیگ کے مطابق ڈپٹی سپیکر کا عہدہ کافی عرصے سے خالی تھا اور حکومتی اتحادی جماعت ق لیگ اپنے امیدوار کو عہدے پر لانا چاہتی تھی جبکہ حکومت اس سے متفق نہیں تھی اور اپنا امیدوار لانا چاہتی تھی وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثنااللہ زہری کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے اور ان سے قبل نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ بلوچستان کے عہدے پر فائز تھے۔ بلوچستان کے 65 رکنی ایوان میں مسلم لیگ ق کی 5، پشتونخوا یپ کی 14، نیشنل پارٹی کی 10 اور مسلم لیگ ن کی 23 نشستیں ہیں۔ صوبے میں مسلم لیگ، پشتون خوا، نیشنل پارٹی اور (ق) لیگ تحادی ہیں۔ایوان میں مجلس وحدت المسلمین کی ایک نشست ہے، جمعیت 8 نشستوں کے ساتھ اپوزیشن کی بڑی جماعت ہے، اپوزیشن میں بلوچستان نیشنل پارٹی کی 2، نیشنل پارٹی عوامی کی ایک اور اے این پی کی بھی ایک نشست ہے۔
تحریک اعتماد