خالد یزدانی
اے روح زندگی
اے خدا کی قوت اظہار
میری دنیا میں تیرے رنگ پھیکے پڑ گئے ہیں
دیکھ اربوں انسان جیتے جی مر رہے ہیں
ناانصافی، بدامنی مایوسی بیماری اور جہالت نے تیری تصویر میں موت کے رنگ بھرنے شروع کر دیئے ہیں
آ اور بول میرے اندر سے
آ میرا کلام بن جا، بیان بن جا میرا قلم بن جا موقلم بن جا
آ انصاف امن اور آزادی کو ترسے ہوئوں کی امید بن جا
آ دوستی، محبت اور برابری سے محروم مخلوق کی ڈھارس بندھانے آ
آ اور جلدی آ
کہ تجھے پکارتے پکارتے کہیں میں ہاتھ توڑ کر نہ بیٹھ جائوں
یہ نظم ’’اے روح زندگی ‘‘ کا بند ہے جس کے خالق محمد حنیف رامے ہیں ۔ جسے ہم ایک دانشور ، مصور، خطاط اور سیاستدان کے جانتے ہیں۔ آج وہ ہم میں نہیں، وہ یکم جنوری 2006ء کو اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے لیکن بطور دانشور ادیب شاعر ان کی تحریریں اور بطور خطاط ومصور ان کی رنگین لکیریںہم کو ہمیشہ ان کی یا ددلاتی رہیں گی ،اھوں نے جو تخلیقی کام کیا وہ بھہ اپنی مثال آپ تھا اور سیاست میںآئے تو اسے بھی انہوں نے عبادت سمجھ کر کی، آج بھی ان کو اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے جن دنوں وہ پنجاب کے وزیر اعلی تھے شاعروں ،ادیبوں اور صحافیوں کو گھر بنانے کے لئے زمین اور فلیٹ الاٹ کئے ۔ستر کی دہائی میں ’’نوائے وقت ‘‘کی بلڈنگ کے تہہ خانے میں ان کے بھائی رشید چوہدری کا مکتبہ جدید پریس تھا جبکہ پہلی منزل پر حنیف رامے کے رسالہ ’’نصرت ‘‘کا دفتر تھا اور ان دنوں اس کی پرنٹنگ مکتبہ جدید پریس میں ہوتی تھی ،میرے والد یزدانی جالندھری ان دنوں کوآپریٹو یونین کے ترجمان پندرہ روزہ’’ نیاراستہ ‘‘ کے مدیر معاون تھے، جبکہ چیف ایڈیٹرصادق حسین قریشی اور ایڈیٹر شرقی بن شائق تھے،کیونکہ والد صاحب کی حنیف رامے کے والد اور سب بھائیوں سے شناسائی تھی اور جب ’’نیا راستہ ‘‘ان کے پریس سے چھپنے لگا تو ہفتے میں ایک دوبار والد صاحب کے ساتھ پریس چلا جاتا جہاں رامے صاحب سے بھی ملاقات ہوجاتی ،ان کی ڈریسنگ ان کی شخصیت کو جاذب نظر بنا دیتی جبکہ گفتگو کا انداز بھی سننے والوں کو متاثر کردیتا تھا ۔بعد ازاں ان سے ماقاتیں رہیں مگر ان کی وزارت کے دور کے بعد ایک بار پھر ان سے ملنے بلکہ انٹرویو کرنے کا بھی موقع ملا ۔وہ جس اپنائیت سے ملتے وہ دوسروں کو گرویدہ کر لیتے تھے ،ان کے ساتھی معروف قانون دان میاں مطیع الرحمن ایڈووکیٹ کی بھی ان کے ساتھ طریل رفاقت رہی بلکہ اسیری میں وہ بھی اکھٹے تھے آج بھی حنیف رامے کو یاد کرتے ہیں ۔حنیف رامے کی زندگی کے ماہ و سال کو دیکھا جائے تو وہ شیخوپورہ کے قریب ایک قصبے میں 1930ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد چودھری غلام حسین ارائیں، کاشتکار برادری سے تعلق رکھتے تھے ۔ حنیف رامے کی عمر دس سالکے قریب تھی جب وہ لاہور آ گئے ،بعد ازاں اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی اور 1952ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے (معاشیات) ایم اے (معاشیات) میں کیا اسی دوران وہ کالج میگزین ’’ راوی ‘‘کے مدیر بھی رہے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد انھوں نے کچھ عرصہ لارنس کالج (گھوڑا گلی )میںپڑھاتے بھی رہے، بعد میں اپنے بڑے بھائی چودھری نذیر کے معروف اشاعتی ادارہ’’ مکتبہ جدید ‘‘سے وابستہ ہو گئے۔ انہوں نے لاہور سے شائع ہونے والے ادبی رسالہ ’’سویرا‘‘ کی ادارت بھی کی۔ ’’سویرا ‘‘سے الگ ہو کرذاتی رسالہ ہفت روزہ ’’نصرت ‘‘لاہور کا اجرا کیا، نصرت ادبی و علمی رسالہ تھا اس کے ساتھ انہوں نے اپنا اشاعتی ادارہ ’’ البیان‘‘ کے نام سے بھی بنایا۔ یہ وہ دور تھا جب ان کے بھائی اور قریبی عزیز بھی پبلشنگ سے وابستہ تھے ۔
حنیف رامے 1965ء میں سرکاری ادبی ادارہ مرکزی اردو بورڈ کے ڈائریکٹر کے عہدہ پر فائز ہوئے اسی دوران ایوب خان کے دور صدارت میں کچھ عرصہ کنونشن لیگ میں رہنے کے بعد تیس نومبر 1967ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے جب پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو اس سے وابستہ ہوگئے ۔ انہوں نے 1970ء پہلے ’’نصرت ‘‘ کو ہفت روزہ کرکے سیاسی رسالے کی صورت شائع کیا بعد میں روزنامہ مساوات جاری کیا جو پیپلز پارٹی کا ترجمان اخبار تھا۔دیکھا جائے تو اسلامی سوشلزم کی اصطلاح کو فروغ دینے والوں میں حنیف رامے پیش پیش تھے۔
1972ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے عہد میں وہ پہلے پنجاب حکومت میں مشیر خزانہ بنے اور بعد میں مارچ 1974ء میں وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے۔ 4 جولائی 1974ء کو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔ وہ 4 چولائی 1975ء کو سینیٹر منتخب ہوئے لیکن چند ماہ بعد پارٹی کے سربراہ سے اختلافات کی بنا پر پارٹی سے الگ ہو گئے اور فوراً پاکستان مسلم لیگ میں شامل ہو گئے جہاں انہیں چیف آرگنائزر بنایا گیا۔ اس زمانے میں انہوں نے بھٹو کے خلاف اخباروں میں مضامین بھی لکھے تھے ۔
ذوالفقار علی بھٹو سے اختلافات پر ان پر خصوصی عدالت نے مقدمہ چلا کر ساڑھے چار سال قید کی سزا سنا دی۔ جنرل ضیاء الحق کے اقتدار سنبھالنے کے وقت وہ جیل میں تھے جب ہائی کورٹ نے ان کی رہائی کا حکم دیا۔ رہائی کے بعد وہ امریکہ چلے گئے۔ چند سال امریکہ میںقیام کے بعد وطن واپس آئے تو انہوں نے مساوات پارٹی کی بنیاد رکھی جس کا نعرہ تھا ’’رب روٹی لوک راج‘‘ اس سلسلے میں انھوں نے رائیٹر گلڈ پنجاب کے منٹگری روڈلاہور کے کشاد ہ دالان میں کنونشن کا بھی اہتمام کیا تھا ۔مجھے یاد ہے اس دوپہر کو تمام شرکا کی دال روٹی سے تواضع کی گئی تھی ، انہوں نے 1986ء میں اسے غلام مصطفی جتوئی کی قیادت میں بننے والی نئی پارٹی نیشنل پیپلز پارٹی میں ضم کر دیا۔ حنیف رامے بارہ سال بعد ایک بار پھر 1988ء میں پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے اور 1993ء میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور اسمبلی کے سپیکر منتخب ہو گئے۔ حنیف رامے نے ایک کتاب پنجاب کا مقدمہ بھی لکھی، جو آج بھی پنجاب کے حوالے سے ایک ریفرنس بک کی حیثیت رکھتی تھی ۔حنیف رامے بنیادی طور پر ایک قلمکار اور مصور تھے ،اپنی زندگی کے آخری حصہ میں وہ زیادہ وقت اسی میں گزارتے ہوئے اس دنیا سے چلے گئے ۔
محمد حنیف رامے کی تحریروں اور مصورانہ خطاطی سے سب آشنا ہیں ذیل میں ان کی ایک نظم ’’گھر‘‘ نذر قارئین ہے ،جسے پڑھ کر آپ بھی اس بات سے اتفاق کریں گے کہ وہ شاعر بھی منفرد تھے ۔
پیارے بیٹے تو نے اینٹ گارے سیمنٹ اور سریے والا مکان تو بنا لیا ہے
میری دعا ہے کہ یہ محبت امن خوشی اور خوشحالی سے بھرا گھر بن جائے
اس کے دروازے سے کوئی بدی اور برائی داخل ہی نہ ہونے پائے
کھڑکیوں سے زندگی بخش ہوا تو ضرور اندر آئے
لیکن ہر طوفان باہر ہی رہ جائے
تیرا یہ گھر وہ کشتی بن جائے جو تجھے ہر بھنور سے بخیر نکال لے جائے
گرمیاں آئیں تو گھر قربتوں کی گرمی سے دمک اٹھے
خزاں آئے تو دیواروں پر سجے فن پاروں سے بہار شرما جائے
بہار آئے تو محسوس ہو کہ ترا گھر ہی اس کا منبع ہے
باہر کتنا ہی شور و غوغا ہو تیرے گھر میں سکون و راحت ہو
باہر کتنا ہی اندھیرا ہو تیرے گھر میں نئے حوصلوں کے چراغ روشن ہوں
تیرے گھر کی چار دیواری اس قلعے کی فصیل بن جائے
جس میں نفرت نقب نہ لگا سکے
محبت جس کے اندر محفوظ ہو
ایک دوسرے کی محبت ۔