پنجاب کے میدانوں میں کئی تاریخی جنگیں لڑی گئیں،عمران خان کو بھی تخت لاہور کوریکوائر کرنے کے لئے ذہانت اور تدبر سے کام لینا پڑا ،الیکشن نتائج کی رو سے یہاں حکومتی نقشہ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔مگر مسلم لیگ ن مقدموں میں الجھی ہوئی تھی اور یہ مقدمے خود اس کے دور میں بنے۔ نواز شریف۔ شہباز شریف اور ان کے خاندان کے لوگوں کے علاوہ سعد رفیق وغیرہ جیسے قریبی ساتھیوں کو سکون کا سانس لینے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ اس صورت حال کا فائدہ عمران کو پہنچا مگر خود اس کی اپنی ٹیم میں وزارت اعلیٰ کے لئے کئی امیدوار تھے۔ جہانگیر ترین اور ان کا خاندان تو عدلیہ کے ہاتھوں ناک آئوٹ ہو گیا مگر چودھری پرویز الٰہی، میاںمحمود الرشید اور عبدالعلیم خان مضبوط امید وار تھے۔ یہ سب پرانے ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے اور ہر ایک نے پارٹی کے لئے سرگرم کردارا دا کیا تھا۔چودھری سرور پارٹی میںنئے تھے مگر ان کا پلڑا بھی خاصہ بھاری تھا،اگرچہ انہیں نیوٹرلائز کرنے کے لئے سینٹ میں بھجوایا جا چکا تھا مگر پنجاب میں ان کے اثرو رسوخ کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کی جاسکتی تھیں۔
ان مہا گرو امیدو اروں کے سامنے عمران کی کرشماتی شخصیت دیوار بن گئی۔ہر ایک پر واضح ہو گیا کہ فیصلہ وہ ہو گا جو پارٹی چیئر مین کرے گا، دھڑے بندی یا شو آف پاور کسی کام نہیں آ سکتے۔
اگرچہ صورت حال عمران کے مکمل کنٹرول میں تھی مگر حکومت سازی پھر بھی آسان معاملہ نہ تھا۔ وہ ایک کولیتے تو دوسرے سبھی گلہ کرتے۔آخر ان کی نظر انتخاب عثمان بزدار پر پڑی۔ وہ امیدواروں کی صف بندی میں کہیں بھی نہ تھے۔ ان کانام سامنے آیا توکئی سوالات اٹھے۔ بڑا عتراض یہ تھا کہ یہ صاحب ہیں کون۔ پارٹی میں آئے انہیں کتنا عرصہ ہواا ور حکومتی تجربہ ان کے پاس کیا ہے۔ ان تمام سوالوں کا جواب عمران کے پاس ایک ہی تھا کہ بزدار کی کارکردگی دیکھ کر آپ حیران رہ جائیں گے۔ سادہ طبیعت ہمارے معاشرے میں کمزوری سمجھی جاتی ہے، ہم جاگیرداروں،وڈیروں ، صنعتکاروں کی چمک دمک سے مرعوب ہوتے ہیں مگر ہماری نظروں کے سامنے عار ف نکئی اور غلام حیدر وائیںنے حکمرانی چلا کر دکھائی۔مگر یہ لوگ وسطی پنجاب کے تھے، جنوبی پنجاب سے مزاری،کھر،قریشی ہمارے لئے قابل قبول ہوتے ہیں،یہ پہلاموقع ہے کہ جنوبی پنجاب سے ایک غیر وڈیرہ عثمان بزدار وزیر اعلی پنجاب بنا۔ یہ عمران خان کی چوائس تھی اور یہ تجربہ کامیاب ہوتانظر آتا ہے۔بزدار کے دروازے سب پر کھلے ہیں ۔ سنا تو یہی ہے ۔ خود مجھے ان سے ملنے کا موقع نہیں ملا۔ ان کا سٹاف میڈیابریفنگ میںمدعو تو کرتا ہے مگر میرے لئے گھر سے نکلنا ایک معذوری بن گیا ہے۔اس پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہوں ۔ اس کے بعد بزدار صاحب کو ضرور ملوں گا۔اب تک کے وزرائے اعلی میں سے میرے سب سے زیادہ اچھے تعلقات وائیں صاحب کے ساتھ تھے۔ اس لئے کہ وہ بھی میری طرح ایک درویش انسان تھے۔ وزارت اعلی کے باقی امیدو اروں کوعمران خان نے مایوس نہیں کیا۔ پرویزالٰہی پنجاب اسمبلی کاسپیکر بنا دیا ۔یہ ایک الگ سلطنت ہے۔ عبدالعلیم خان کو سینیئر منسٹر کا منصب دیا گیا اور نوے شاہراہ قائد اعظم کاچمکتا دمکتا دفتر بھی مل گیا،۔ ان سے ملنے کی خواہش اس لئے کی تاکہ جان سکوں کہ پنجاب میں ویلیج کونسل کو کب اختیارات وبجٹ ملے گا۔ قصور میں میرا گائوں فتوحی والہ اکہتر برسوںسے پس ماندہ چلاآرہا ہے۔ محمود الرشید بھی گھاٹے میں نہیں رہے، انہیں ہائوسنگ کا شعبہ ملا جو ان کے تجربے سے میل کھاتا ہے اور جس پر وزیر اعظم کی پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کے منصوبے کی کامیابی کا دارومدار ہے۔ چودھری سرور کو اگر کھد بد ہو رہی تھی تو انہیں پنجاب کا لاٹ صاحب بنا دیا گیا۔ ان کی عزت افزائی کے لیے خصوصی طور پر انہیں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بیٹھنے کی اجازت دی گئی۔ اور چونکہ ان کے پاس سرور فائونڈیشن کی شکل میں فلاحی کاموں کا وسیع تجربہ ہے۔ ا سلئے انہیں صوبے میں صاف پانی کی فراہمی جیسے انسانی ضرورت کے منصوبوں میںبھی مشاورت کا اعزاز دیا گیا ہے۔ چودھری سرور کی ڈیرے داری سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ محض آئینی اختیارات تک محدود نہیں ہیں بلکہ وہ وسیع تر مشاورت کا حصہ ہیں، وہ خود بھی وزیر اعلی کے پاس چلے جاتے ہیں اور وزیر اعلی بھی ان سے ملنے آ جاتے ہیں۔ اس طرح برطانوی پارلیمنٹ کے وسیع تجربے سے مالا مال چودھری سرور کو کونے کھدرے میں نہیں ڈالا۔ عمرا ن خان ہر کسی کی قدر و منزلت پہچانتے ہیں۔
عمران خان نے بلند بانگ نعرہ لگایا تھا کہ وہ جنوبی پنجاب کا الگ صوبہ بنائیں گے۔ اس میں شاید کچھ وقت لگے مگر عمران خان نے وایا میڈیا تلاش کر لیا ہے اور جنوبی پنجاب کے لئے ایک الگ سول سیکرٹریٹ فوری طور پر ملتان یا بہاولپور میں بنانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ پنجاب کابینہ کا ایک اجلاس بہاولپور میں منعقد ہو چکا ہے۔ منعم خان مغل دور کا ایک اساطیری کردار ہے۔ ا س سے کسی نے پوچھا کہ آپ ہر وقت متحرک کیوں رہتے ہیں، کہیں ٹک کر کیوں نہیںبیٹھتے ۔ منعم خان نے جواب دیا کہ منعم جہاں خیمہ لگا لے ، وہاں بھی منعم ہے ، یعنی اسے حکمرانی کا سکہ جمانے کے لئے کسی مخصوص پایہ تخت کی ضروت نہیں۔ اس لئے بزدار صاحب بھی اپنے وزرا کو جہاں بھی لے جا کر اجلا س منعقد کریں گے۔، یہ پنجاب کابینہ کی میٹنگ ہی کہلائے گی اورا سکے فیصلوں کا وہی وزن ہو گا جو سیون کلب میں کئے گئے فیصلوں کا ہوتا ہے۔
کبھی کبھار باسی کڑھی مں ابال آجاتاہے۔ ا سلئے جہاں حکومت ہوگی اور جہاں حکمران بننے کے ایک سے زیادہ امید وار ہوں گے وہاں چائے کی پیالی میں بھی طوفان کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ پچھلے دنوں پرویز الہی کے گھر ہونے والی ایک نجی گفتگو کو سوشل میڈیا پر وائرل کیا گیا۔ اس کا نشانہ گورنر پنجاب چودھری سرور تھے مگر وڈیو وائرل کرنے والانہیں جانتا کہ چودھری سرور برطانوی میڈیا کو ناکو ں چنے چبوا چکا ہے۔ اور جس اخبارنے ان کے خلاف طوفان کھڑ اکر رکھا تھا وہ ہمیشہ کی موت مر چکا ہے۔ عمران خان نے بھی ذہانت کا مظاہرہ کیاا ور اس چائے کی پیالی کے طوفان کو سونامی نہیں بننے دیا۔ پارٹی لیڈر اگر بر وقت اقدام کرے تو چھوٹی موٹی سازشیں خود بخود دم توڑ جاتی ہیں۔پنجاب سازشوں کا گڑھ رہا۔ یہاں ممدوٹ اوردولتانہ میں کشمکش برپا ہوئی۔ غلام حیدر وائیں اور میاں منظور وٹو میں ٹھن گئی۔ پرویز الہی نے نواز شریف کے خلاف ایک ناکام سازش کی۔ مگر اب عمران خان کی لیڈر شپ کا جادو ہے جو سر چڑھ کے بول رہا ہے۔ پی ٹی آئی کو تخت لاہور کی کوئی فکر لاحق نہیں رہی۔اس لئے وہ قدرے آزاد ہے کہ سندھ میں مخول شخول کر سکے اور دل بہلاوے کے لئے کبھی گورنر راج کی شرلی چھوڑے یا پیپلز پارٹی کے فارورڈ گروپ کی سرپرستی کرے۔ سندھ ایک اہم صوبہ ہے جو کبھی پیپلز پارٹی کے شکنجے سے نہیں نکلا اور ا س پارٹی نے بھی قسم کھا رکھی ہے کہ اپنے ووٹروں کی ہمیشہ حق تلفی کرنی ہے۔ یہ البتہ ایک الگ موضوع ہے۔