سال دو ہزار انیس ختم ہوا چاہتا ہے اور روایت یہ ہے کہ جانے والوں کو اچھے انداز میں رخصت کیا جاتا ہے ۔ویسے تو ہر لمحہ ہر دن ہر ہفتہ ہر مہینہ اور ہر سال اپنے ساتھ بہت سے واقعات لے کے آتا ہے جو یا تو چند دنو ںمیں بھلا دئیے جاتے ہیں یا ان واقعات کی یادیں بھلانے سے بھی نہیں بھولا کرتی۔خیر یہ لمبی داستان ہے اور یہ چلتی رہے گی جب تک قلم چلتا رہا لیکن آج ہم نے ایک طرف تو گزرے سال پہ ایک نظر دیکھتے ہوئے اپنا محاسبہ کرنے کی کوشش کرنا ہے اور پھر آنیوالے سال کیلئے نئی امید,نئے جذبے اور نئے ولولے سے ملکی ترقی کیلئے کوششیں شروع کرنا ہیں۔دو مسئلے بہت اہم ہیں ۔ماحولیاتی تبدیلی اور نظام تعلیم جس میں پنجاب میں بہت کچھ ہونے جارہا ہے ۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ سال دو ہزار انیس میں دنیا بھر کی طرح صوبہ پنجاب کے لوگ بھی موسمیاتی ماحول سے لڑتے نظر آئے۔پنجاب اس لیے کہنا پڑا ہے کہ ابھی تک ملک کے باقی علاقوں میں ماحول اس قدر خراب نہیں ہوا ہے جتنا پنجاب کے لوگ بھگت رہے ہیں۔ اسکی بڑی سیدھی سی وجہ تو یہ ہے کہ پنجاب کی آبادی دوسرے صوبوں سے کہیں زیادہ ہے ۔آبادی کے تناسب سے لوگ نئے گھر,نئے پلازے,شاپنگ مالز,سڑکیں اور سکول و کالج بنا رہے ہیں اور اسی طرح پنجاب باقی صوبوں سے موٹر سائیکل اور گاڑیاں استعمال کرنے میںبھی کہیں آگے ہے ۔یعنی ایک طرف پنجاب میں زرعی زمینیں کاشت کی بجائے ہاوسسنگ سوسائٹیز اور کارخانوں کے استعمال میں جا رہی ہیں تو زیادہ تعداد میں چلنے والی گاڑیوں کے دھوئیں سے صوبے کی فضا میں مسلسل ذہریلا دھواں شامل ہو رہا ہے بیماریاں بڑھ رہی ہیں اور ہر طرح کے مسائل میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔لاہور ‘ فیصل آباد اور دوسرے بڑے شہر فضائی آلودگی کا خاص شکار ہیں اور ہمیں یہ یاد رکھنا ہے کہ فضائی آلودگی کا یہ عمل ایک دو سال نہیں بلکہ ہماری کئی عشروں کی غفلت کا ثمر ہے اورآنے والے سال بھی اپنے لوگوں کیلئے ماحول کو صاف ستھرا بنانا حکومت کیلئے ایک بہت اہم اور توجہ طلب مسئلہ رہے گا ۔شجر کاری تو ہمیشہ سے ہوتی چلی آرہی ہے لیکن اب ہمیں نہ صرف درخت لگانے ہونگے بلکہ شہروں کے آس پاس ذخیروں کی شکل میں چھوٹے چھوٹے جنگل اگانے پڑینگے۔نئی ہاوسنگ سوسائٹیز شہروں سے ہٹ کے بنانی پڑیںگی اورحکومت کو بڑے گھر بنانے کی بجائے فلیٹ سسٹم کا رہائشی پیکج تیار کرنا ہوگا۔ اس کیلئے سکول و کالج اور مسجد و مدرسہ کو بھی مکمل پلان بنا کے دینا پڑیگا ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ موسمیاتی تغیر و تبدل، ماحولیاتی آلودگی،سموگ اور دیگر قدرتی آفات شہروں کوبری طرح متاثر کر رہی ہیں موسمیاتی تغیرات اور ماحولیات آلودگی کے ایشوز پر قابو پانا بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے موسمیاتی چیلنج کو مد نظر رکھتے ہوئے عالمی فورم پر اس کیلئے آواز اٹھائی۔آج کل حکومت پنجاب سرسبز اور صاف پاکستان کے ویژن پر عمل کرنے کی کوششوں میں ہے۔ اس مہم کو کامیاب بنانے کیلئے اور عوام کو اس میںبڑھ چڑھ کرحصہ لینے کی طرف راغب کرنے کے لیے پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت کمشنرز اورڈپٹی کمشنرز کو ایڈمنسٹریٹرز کا چارج دیا گیا ہے۔بتایا جارہا ہے ہاسنگ سوسائٹیوں کو بھی درخت لگانے کا پابند کیا گیا ہے اور آئندہ کمپلیشن سرٹیفکیٹ درخت لگانے سے مشروط ہو گا اورصوبہ میں صاف اور سر سبز پنجاب مقابلے منعقد کرائے جائینگے۔ عمدہ کارکردگی دکھانے والے شہروں اور انکی انتظامیہ کو قومی اور مقامی سطح پر سراہا جائیگا۔ صفائی نصف ایمان ہے اوردرخت لگانا صدقہ جاریہ ہے اس کا مفہوم آج ساری دنیا کو سمجھ آچکا ہے۔صوبے کو سر سبز و شاداب بنانے کا عمل بہت زیادہ محنت طلب ہے اور اسے کامیاب بنانے کیلئے سرکار اور نجی شعبوں کو ساتھ کھڑا رہنا پڑیگا ۔ہمیں یہ نقطہ سمجھ لینا ہے کہ ہم نے اپنی آنیوالی نسلوں کو صاف ستھرا ماحول فراہم کرنا ہے - اگر حکومت کا ماحول کو بہتربنانے پر پورا فوکس رہا تو امید اور یقین ہے یہ مہم کامیاب ہو گی۔یہ اچھی بات ہے کہ پنجاب میں پہلی کلاس سے پانچویں کلاس تک اردوزبان میں تعلیم دی جائیگی اورانگریزی کو بطور مضمون پڑھایا جائیگا۔پنجاب کابینہ نے سرکاری سکولوں میں پرائمری کی سطح پر اردو کو نصاب اور تدریس کا ذریعہ بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ نجی شعبے کو بھی کسی طرح اس اہم معاملے میں ساتھ ملا لیا جاتا ۔خیر حکومت کے اس فیصلے کو بہت سے لوگ سراہا رہے ہیں اور کچھ اسی واپسی کا سفر کہہ رہے ہیں اور بہت سوں کی خواہش تھی کہ کاش پنجاب کے تعلیمی اداروں میں زریعہ تعلیم پنجابی زبان ہوتی باقی سب زبانیں بطور زبان پڑھائی جا سکتی تھیں۔ یہ بہت اہم نقطہ ہے اور اس کے بہت دور رس اثرات نکلیں گے کہ پنجاب میں پانچویں اورآٹھویں جماعت کے امتحانات مرحلہ وار ختم کرنے کا پلان بن چکا ہے۔چلیں یہ بھی بہت اچھی کوشش کہی جاسکتی ہے کہ قومی زبان میں تعلیم دینے سے طلبا کو ابتدائی سالوں میں پیش آنیوالی مشکلات میں کمی آئیگی۔ اردو زبان کو ذریعہ تدریس بنانے سے پرائمری کی سطح پر تعلیم آسان ہو گی جس سے پورے پنجاب بالخصوص کم ترقی یافتہ علاقوں کے طلبا کی ذہنی آبیاری بہتر طریقے سے ممکن ہو سکے گی۔اور انگریزی زبان نہ سمجھ کر سکول چھوڑ جانیوالے ہزاروں طلبا کو پڑھنے کا سنہری موقع مل سکے گا جس سے صوبے میں تعلیم کی شرح میں اضافہ اور سکول چھوڑ جانیوالے طلباء کی تعداد میں کمی آئیگی۔