نیا سال میری مسجد اور علیل پرویزمشرف…

Jan 03, 2020

طاہر جمیل نورانی

سال 2020 ء کے آغازمیں 48 گھنٹے ابھی باقی تھے کہ میرے موبائل کی گھنٹی بجی! یا اللہ خیر! میرے منہ سے بے اختیار نکلا…اپنے پروردگار کا شکر اس لیے بھی اداکیا کہ یہ گھنٹی مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے دوران نہیں بجی تھی ورنہ…اپنی شرمندگی اور رب کریم کے حضور دئیے اس سجدے کے بعد اس مصرع پر ’’جانمازی دیکھ لی تیری نماز‘‘ ہونے والا احساس ندامت شائد بھلا نہ پاتا؟؟ شرمندگی اور ندامت سے تو میرا سر پہلے ہی جُھکا ہوا تھا۔ کیونکہ اپنی مقامی مسجد کی موجودہ کمیٹی کے بعض عہدیداران اور اس مسجد میں ماضی میں رضاکارانہ خدمات سرانجام دینے والے بعض نمازیوں کے مابین وقتاً وفتاً ہاتھا پائی اور احترام مسجد کی پائمالی کے انتہائی افسوسناک مناظر اورواقعات پچھلے دو برس سے یہاں رونما ہو رہے ہیں؟ مسجد میں امن و امان کی بحالی اور دوران نماز کمیٹی ارکان کی جانب سے مبینہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کے لیے پولیس چونکہ متعدد بار معہ جوتے مسجد کے اندر بھی آ چکی تھی…اس لیے ہر وقت ایک دھڑکہ سا لگا رہتا ہے…؟موبائل کی گھنٹی بجی تو سوچا پھر کسی ناخوشگوار واقعہ کی اطلاع نہ ہو…مگر! اللہ تعالیٰ کا لاکھ شکر ایسا ہرگز نہ تھا…فون پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق کواپریٹو وزیر برائے پنجاب چودھری محمد ریاض آف گوجر خان تھے۔ چودھری صاحب سے میرا سیاسی چھیڑ چھاڑ کا تعلق چونکہ ایک طویل عرصہ سے چلا آ رہا ہے اس لیے ’’سیاسی چسکوں‘‘ سے لطف اندوز ہونے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے؟ناشتے سے فارغ ہوا…سوچا کیوں نہ اپنے کالم نگار سے سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویزمشرف کو خصوصی عدالت کی جانب سے آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کے جرم میں دی جانے والی سزائے موت پر تبادلہ خیال کر لیا جائے۔ چودھری ریاض نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا! جرم غریب ، امیر یا کسی بھی وی وی آئی پی سے سرزد ہو اسے جرم ہی کہا جاتا ہے مگر افسوس! ہمارے ہاں امیر کے مقابلے میں غریب پر ثابت ہونے والے جرم کو آج بھی انگریز دور کے قوانین کے مطابق دیکھا جاتا ہے۔ اس سے بڑی قومی بدقسمتی اور کیا ہو گی کہ بڑے لوگوں پر مجرم ثابت ہونے کے باوجود تھانوں اور جیلوں میں ان سے معززانہ سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ جیلوں کی اصلاحات تک ہو چکیں مگر غریب قیدی جیل میں آج بھی انگریزی قانون کے تحت سزا کاٹ رہا ہے۔ میں نے مختصر تمہید کے بعد چودھری صاحب سے کہا! سابق صدر جنرل (ر) پرویزمشرف کا کیس مجھ سے آپ زیادہ بہتر سمجھتے ہیں کہ یہ اس دور کی کہانی ہے جب بغرض علاج لندن آئے محمد نواز شریف اس وقت وزارت عظمیٰ پر فائز تھے۔ N.R.O ، پھر اس قومی مفاہمتی آرڈیننس کا کالعدم، مشرف کے طیارے کو کراچی ائیرپورٹ پر نہ اُترنے کے احکامات، لال مسجد ، کارگل اور کئی دیگر ایسے عوامل شامل ہیں جن کی ماضی میں موقع کی مناسبت سے ترجیحات بدل دی گئیں اور یوں وقت آیا کہ جنرل پرویز مشرف کو غدار اور آئین شکن آمر قرار دے دیا گیا۔ برطانوی سیاسی حلقوں میں آج بھی یہ سوال اُٹھتا ہے کہ بغرض علاج اُنہیں بیرون ممالک جانے کی اجازت کس دور حکومت میں دی گئی؟ پرویز مشرف کے خلاف حالیہ دئیے گئے 5 بار سزائے موت کے حکم میں دو معزز جج صاحبان نے سزائے موت جبکہ جسٹس نذر اکبر نے فیصلے سے اختلاف کیا ہے تاہم آئین توڑنے، ایمرجنسی کے نفاذ اور وکلا کو نظر بندکرنے کے جرم میں 1973ء ایکٹ کے آرٹیکل 6 کے پیراگراف 66 میں جسٹس وقار سیٹھ نے جو مبینہ ریمارکس دئیے اُس کو عوام اور اداروں میں انسانی حقوق کی اس لیے بھی پامالی تصورکیا گیا ہے کہ پرویز مشرف شدید بیماری کی وجہ سے عدالت میں حاضر نہیں ہو پائے تھے۔ میں نے چودھری صاحب کے ’’سیاسی چہکے‘ کے پس پردہ ’’سواد‘‘ کو بھانپ لیا تھا! مگر! آپ یہ بھول رہے ہیں کہ جہاں آپ وہ رہے ہیں وہاں کے برطانوی ڈکٹیٹر کرامویل نے بھی تو جنرل (ر) پرویزمشرف والا جرم کیا تھا؟ جس کی سزا اسے بعد ازمرگ دی گئی…وہ بھی تو ایک ڈکٹیٹر تھا…پھر جنرل پرویزمشرف کے عدالتی فیصلے پر شور و غل کیسا اور چودھری صاحب کا لہجہ مکمل طور پر سیاسی ہو چکاتھا…
1658ء میں مرنے والے اس برطانوی ڈکٹیٹر OLIVER کی مثال تو آپ دے رہے ہیں مگر آپ یہ بھی جانتے ہونگے کہ اس ڈکٹیٹر کو اس برطانیہ میں سزائے موت دی گئی جسے آج بھی MOTHER OF DEMOCRACY کہا جاتا ہے ہم نے جمہوریت کی نقل ضرور اُتاری ہے مگرافسوس! جمہوریت کے وہ مدارج طے نہیں کر سکے جو جمہوری ممالک کی پہچان ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ محکوم ممالک آج بھی برطانوی مثالوں پر اپنی سیاستیں قائم رکھے ہوئے ہیں…؟ چودھری ریاض ایک ہلکا سا قہقہ لگاتے ہوئے ’’سیاستدانوں‘‘ کے دفاع میں اپنے لیڈر محمد نواز شریف کی قومی خدمات کا ذکر کرنے ہی لگے تھے کہ موبائل کی گھنٹی ایک بار پھر بجنے لگی…یہ محض اتفاق تھا کہ دوسری جانب ممتاز عسکری تجزیہ نگار، سابق کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفی تھے۔ چودھری صاحب سے نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے معذرت کرنا پڑی…کہ ’’محبتوں میںملاوٹ کا میں قائل نہیں…!

مزیدخبریں