صنعتوں کو اپ گریڈ کرنا لازم،ورنہ برآمدات جمود کا شکار رہیںگی،آغا شہاب

Jan 03, 2020

کراچی(کامرس رپورٹر)کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ( کے سی سی آئی ) کے صدر آغا شہاب احمد خان نے کہا ہے کہ عالمی سطح پر تیزی سے رونما ہوانے والی تبدیلیوں اور کاروبار کرنے کے جدید طریقوں باالخصوص جدید ٹیکنالوجی اور جدت پسندی کی وجہ سے پاکستانی کی برآمدی صنعتوں کو اپنے حریفوں سے واقعی سخت مقابلے کا سامنا ہے جو برآمدات24ارب ڈالر تک جمود کا شکار رہنے کی بنیادی وجہ ہے لہٰذا پالیسی سازوں کو سازگار ماحول پیدا کرنا ہوگا اور صنعتوں خاص طور پر پانچ برآمدی صنعتوں یعنی ٹیکسٹائل، لیدر، کارپٹ، اسپورٹس، سرجیکل آلات کو اپ گریڈ کرنے کے اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ ہماری صنعتیں اپنی جگہ بنا سکیں بصورت دیگر ہم پیچھے رہ جائیں گے اور آنے والے دنوں میں برآمدات مزید کم ہوجائیں گی۔ایک بیان میں آغا شہاب نے کہاکہ مالی سال2019میں پاکستان نے 24.21ارب ڈالرمالیت کی اشیاء برآمد کیں جو مالی سال 2018میں24.82ارب ڈالر تھیں جس میں 2.45 فیصد یا 0.61ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے جبکہ مالی سال2019کی پہلی سہ ماہی میں5.89ارب ڈالر کی برآمدات کے مقابلے میں مالی سال2020کی پہلی سہ ماہی میں 6.03ارب ڈالر کی برآمدات ریکارڈ کی گئیں جس میں 2.37فیصدکا معمولی اضافہ ہوا اس کا مطلب یہ ہے کہ مالی سال 2020کے اختتام پر برآمدات24ارب ڈالر کے آس پاس ہی رہنے کا خدشہ ہے۔انہوںنے کہاکہ یہ ایک سنگین صورتحال ہے کہ ہم صرف چند بڑی مارکیٹوں پر ہی توجہ دینے تک محدود رہتے ہیں جبکہ کئی چھوٹی لیکن بہت منافع بخش اور امید افزا مارکیٹوں پر کبھی بھی زیرغور نہیںلایاجاتا جو ہماری برآمدات جمود کا شکار رہنے کی بنیادی وجہ ہے تاہم جغرافیائی تنوع پر توجہ دینے کا یہ انتہائی مناسب وقت ہے۔
یہ امر خوش آئندہے کہ حکومت کو اس کا ادراک ہے اور افریقہ کی بڑی مارکیٹ کو ترجیح دی جارہی ہے جس کو ہم بہت زیادہ سراہتے ہیں لیکن ساتھ ہی حکومت کوچھوٹی مارکیٹوں پر بھی توجہ دینا ہوگی۔آغا شہاب نے برآمدات جمود کا شکار رہنے کی بعض وجوہات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہاکہ آج مینوفیکچرنگ سیکٹر انتہائی بری کارکردگی کا مظاہرہ کررہاہے کیونکہ بنیادی ضرورت یعنی گیس جو ان دنوں بمشکل دستیاب ہے انتہائی زائد نرخوں پر فراہم کی جارہی ہے ۔ کیپٹیو پاور پلانٹس کے لیے گیس نرخوں میں تجویز کردہ31فیصد اضافے سے پانچ برآمدی سیکٹرز کی پیداواری سرگرمیوں پر انتہائی سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔اوگرا نے رجسٹرڈ مینوفیکچررز وبرآمدکنندگان کے لیے گیس نرخ 786روپے سے بڑھا کر 1,033.99روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کرنے کی تجویز دی ہے جو ان سیکٹرز کو شدید نقصان پہنچانے کا باعث بنے گا۔انہوں نے کہاکہ 2019میں مقامی کرنسی کی قدر میں 12فیصد کمی کی وجہ سے برآمدی اور ویلیو ایڈیڈ سیکٹرز کا اہم خام مال بہت مہنگا ہوگیا ہے۔گیس نرخوں میں اضافے کی تجویز پر عمل درآمد سے لاگت میں مزید اضافہ ہوجائے گا جس کے نتیجے میں پاکستانی مصنوعات خطے کی مارکیٹوں میں مسابقت کے قابل نہیں رہیں گے۔ آغا شہاب نے مزید کہاکہ درآمدات پر بھاری بھرکم ڈیوٹیز کے نفاذ سے کئی کاروباری ادارے بندہونے کے قریب ہیں جبکہ حکومت نے مہنگائی پر قابو پانے کے لیے سخت مانیٹری پالیسی کو مستقل طور پر اپنایا ہوا ہے لیکن اس اقدام نے معاشی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے اور صنعتوں کی مشکلات کو بڑھا دیا ہے۔زائد نرخوں کے ساتھ گیس کی کم سپلائی ،بجلی کے زائد نرخ، ایندھن کے زائد نرخ ، اضافی کسٹم ڈیوٹیز، ریگولیٹری ڈیوٹیز،لین دین کے معاملات میں رکاوٹیں، ٹیکس حکام کی جانب سے ہراساں کیے جانے کے طرز عمل نے کاروبار کو بہت زیادہ مشکل بنا دیا ہے قطع نظر اس کے کہ کاروبار کرنے کی درجہ بندی2020میں بہتری آئی ہے ۔انہوںنے کہاکہ برآمدکنندگان پہلے ہی مشکل دور سے گزر رہے ہیں کیونکہ کئی پاکستانی مصنوعات بین الاقوامی مارکیٹوں میں متروک ہوچکی ہیں جہاں انہیں زائد کاروباری لاگت، جمود کا شکار صنعتی سرگرمیوں،زائد افراط زر اور دیگر مسائل خاص طور پر ریفنڈز پھنسنے کی وجہ سے سخت مشکلات کا سامنا ہے۔

مزیدخبریں