اسلام آباد ( وقائع نگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ نیب آرڈیننس میں ترمیم کا مشکل فیصلہ کاروبار میں آسانی اور بیورو کریسی کو ضابطہ کی غلطیوں پر نیب کی پکڑ سے بچانے کے لئے کیا گیا ہے، اس حوالے سے اتفاق رائے اہم ہے، معاشی استحکام کیلئے گورننس کے نظام کو بہتر بنانے پر توجہ دی جا رہی ہے۔ نیب آرڈیننس میں تبدیلی کا فیصلہ بہت مشکل تھا اس کا مقصد کاروباری طبقے اور بیوروکریٹس کو تحفظ دینا تھا، نیب کی وجہ سے بیوروکریٹس ڈرے ہوئے تھے اور کام نہیں چل رہا تھا، انہیں ضابطے کی غلطیوں پر نیب کے شکنجے سے بچانا مقصود تھانیب آرڈیننس میں ترمیم کرنا مشکل تھا لیکن اپوزیشن نے آرڈیننس پڑھے بغیر واویلا مچایا،،پاکستانی قرضوں میں2008 سے لے کر 2018تک 24ہزار ٹریلین روپے کا اضافہ ہوا، ملک کو قرضوں سے نکالنے اور معیشت کے استحکام کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، جمع کیا گیا ٹیکس قرضوں کی قسط میں چلا جاتا ہے, معاشی استحکام کے لیے گورننس کے نظام کو بہتر کرنا ہو گا۔جمعرات کو وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں سول سرونٹس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نیب ترمیمی آرڈیننس کی منظوری بہت مشکل کام تھا، یہ ایک سیاسی جماعت کی احتساب کیلئے بائیس سالہ جدوجہد نتیجہ ہے ، یہ ترمیم ان حکومتوں میں نہیں ہو سکی جو نیب قوانین کے خلاف تھے ،ہماری حکومت میں یہ ترمیم ہوئی، لوگ ہمیں احتساب کے حوالے سے سخت سمجھتے تھے لیکن یہ ترمیم ہماری حکومت میں ہوئی،احتساب ہمارا مشن ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ بہت مشکل فیصلہ تھاکیونکہ میڈیا اور اپوزیشن کی جانب سے اس حوالے سے بہت اعتراض کیا گیا اس فیصلے کو پارٹی کے اندر بھی منظور کرنا مشکل تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی قرضوں میں2008 سے لے کر 2018تک 24ہزار ٹریلین روپے کا اضافہ ہوا،(ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں یہ قرضہ دوگنا ہو گیا تھا،جب ہماری حکومت آئی تو جتنا ٹیکس اکٹھا کیا اس کا آدھا تو قرضوں کا سود دینے میں چلا گیا۔ عمران خان نے کہا کہ ملک کو چلانے کیلئے ہم عہدیداروں کو کیا پیسے دیں، ملک میں آمدنی کے ذخائر ہی نہیں بن رہے، آمدنی میں اضافے کیلئے ضروری ہے کہ انتظامی نظام درست ہو، انتظامی کام ابھی نہیں ہو رہا کیونکہ سب ڈرے ہوئے تھے کہ کوئی بھی پکڑا جا سکتا ہے، سب کو نیب کا خوف تھا جس کی وجہ سے کوئی بھی بڑے منصوبے پر کام نہیں کر سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اسی لئے ہمیں نیب ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے بڑا اقدام اٹھانا پڑا،اگر بیوروکریٹس اختیارات کے غلط استعمال میں پکڑے جائیں گے تو ملک کیسے چلے گا۔ انہوں نے کہا کہ بزنس کمیونٹی بھی دائرہ اختیار میں نہیں آتی کیونکہ ان کے پاس پبلک آفس نہیں ہے،جب تک ان کے پاس پبلک آفس نہیں ان پر نیب کیس نہیں بن سکتا۔انہوں نے کہا کہ جو لوگ شور مچا رہے ہیں ان کو نیب ترمیمی آرڈیننس کا پتہ نہیں، بزنس کیسز نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے، اگر ٹیکس کیسز ہیں تو اس حوالے سے بھی ایف بی آر موجود ہے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اس حوالے سے چیئرمین نیب سے بھی بات کی ہے کہ 2019پاکستان کیلئے بہت مشکل سال تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ نیب آرڈیننس میں ترمیم مشکل فیصلہ تھا، نیب کے خوف سے ترقیاتی منصوبوں میں بیورو کریسی کا کردار محدود ہو گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ملک مشکل حالات سے گزرا ہے، معیشت کے حوالے سے 2019ء ایک مشکل سال تھا کیونکہ قرضوں کی وجہ سے بڑے چیلنجز درپیش رہے ہیں، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، کرنسی پر دبائو اور قیمتوں میں اضافہ جیسے مسائل کا سامنا رہا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے، 2008ء سے 2018ء تک دس سال کے عرصہ میں ملک پر 24 ہزار ارب روپے کے قرضے چڑھے ہیں، ٹیکس محصولات سے ہونے والی ملکی آمدن کا آدھا حصہ ان قرضوں پر سود کی ادائیگی کی مد میں چلا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان مسائل کے حل کے لئے ملک میں سرمائے میں بڑھوتری کی ضرورت ہے، یہ اسی صورت ممکن ہو گا جب کاروباری سرگرمیاں فروغ پائیں گی، صنعتیں چلیں گی اور زرعی پیداوار بڑھے گی، اس مقصد کے لئے رکاوٹیں دور کرنے پر توجہ دی جا رہی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ معاشی استحکام کیلئے گورننس کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، نیب آرڈیننس میں ترمیم انہی کوششوں کا حصہ ہے، کاروباری معاملات میں نیب کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے، اس حوالے سے چیئرمین نیب کو پیغام بھی بھجوایا ہے کیونکہ ہمیں ملکی مسائل کے حل کے لئے کاروبار اور گورننس کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنی ہوں گی۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جمہوریت میں سیاسی مشاورت اور اتفاق رائے سے چلنا ہوتا ہے۔ نیب کے چیئرمین کو سمجھایا گیا کہ نیب کا مینڈیٹ کرپشن کیسز کو پکڑنا ہوتا ہے اور عالمی سطح پر کرپشن کی تعریف صرف اور صرف پبلک آفس کا ناجائز اور ذاتی مفاد کے لیے استعمال ہے۔