آرمی ایکٹ ترمیم، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی سمیت اکثر جماعتوں کی حمایت

اسلام آباد (محمد نواز رضا۔ وقائع نگار خصوصی/ نمائندہ نوائے وقت) باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی برائے قانون سازی کے اجلاس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت اکثر جماعتوں نے آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم نیشنل پارٹی نے آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل کی مخالفت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جب کہ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کی جانب سے آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل کے بارے میں غیر جانبدار رہے گی۔ تاحال جمعیت علماء اسلام (ف) اور جماعت اسلامی کی پوزیشن واضح نہیں۔ جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ نے نوائے وقت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل کو اتفاق رائے سے منظور کر نا چاہیے۔ نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل بزنجو نے جمعرات کی شب نوائے وقت سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی جماعت نے آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے بلائے گئے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں نیشنل پارٹی نے شرکت نہیں کی اور کہا کہ ہمیں پاکستان مسلم لیگ(ن) سے شکایت ہے، ہم پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ تین عشروں سے کھڑے ہیں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل کی حمایت کرنے بارے میں ہم سے مشاورت نہیں کی۔ جمعرات کو پارلیمانی کمیٹی برائے قانون سازی کا اجلاس وزیر دفاع پرویز خٹک کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علما اسلام (ف)، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف اور حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے 33نمائندوں نے شرکت کی۔ پارلیمانی کمیٹی کا آج دوبارہ اجلاس ہو گا جس میں آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل کو حتمی شکل دی جائے گی۔ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل کی منظوری میں تمام پارلیمانی تقاضے پورے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس سے قبل پرویز خٹک کی قیادت میں حکومتی وفد نے پاکستان مسلم لیگ (ن) ، پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر پارلیمانی جماعتوں سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور ان کو آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل بارے میں اعتماد میں لیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت کو حمایت کی یقین دہانی کرا دی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ہی آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل کی منظوری حاصل کر لی۔ اس دوران پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے لندن میں پارٹی کے قائد محمد نواز شریف سے آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل کی حمایت بارے میں گرین سگنل حاصل کر لیا۔ انہوں نے پارٹی کو آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل کی حمایت کرنے کی ہدایت کی۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بعض ارکان نے آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل کی مخالفت کی اور کہا کہ پارٹی کو اس کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔ خواجہ آصف نے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں حکومت کو بتایا کہ آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل کی حمایت کرنے پر پارٹی میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے لیکن پارٹی قیادت کے فیصلہ کے مطابق ترمیمی بل کی حمایت کی جا رہی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام نے کہا ہماری جماعت کا اجلاس ہفتے کو منعقد ہو رہا اس میں فیصلہ کرینگے، پیپلز پارٹی نے کہا کہ بل کی منظوری پر کوئی اختلاف نہیں لیکن بل منظوری کیلئے مجلس قائمہ کو بھجوا دیا جائے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں (قومی اسمبلی ،سینیٹ) میںآرمی ایکٹ میں ترمیم کا بل آج(جمعہ ) پیش کیا جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت کریں گے۔ عمران خان پارلیمنٹ ہائوس میں تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی اجلاس کی صدارت بھی کرینگے۔ وزیراعظم قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت سے پہلے پارلیمنٹ ہائوس میں صبح 10بجے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی صدارت کریں گے۔ اجلاس میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی پارلیمنٹ سے منظوری کی حکمت عملی طے ہوگی۔ وزیراعظم نے پارلیمانی پارٹی میں شامل تمام ارکان کو حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کر دی ہے۔ حکومت نے آرمی ایکٹ اور ائر فورس ایکٹ کے ترمیمی مسودے پارلیمانی کمیٹی کو پیش کر دیئے۔ وزیر قانون فروغ نسنیم نے کہا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی میں تمام سیاسی جماعتوں کو بریفنگ دی جو سوالات کئے گئے ان کا جواب دیا گیا۔ پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس پھر ہوگا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں کہ حکومت ہمیں مطمئن نہیں کر سکی۔ چاروں سروسز چیفس سے متعلق ترامیم پیش کی جائیں گی۔ یاد رہے کہ حکومت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت پر قانون سازی کیلئے مسلم لیگ ن سے حمایت مانگی۔ اس حوالے سے پرویز خٹک، شبلی فراز اور اعظم سواتی پر مشتمل حکومتی وفد ا پوزیشن لیڈر کے چیمبر میں گیا جہاں انہوں نے خواجہ آصف ایاز صادق اور رانا تنویر سمیت دیگر سے ملاقات کی تھی۔ مسلم لیگ ن نے حکومت کو آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر غیر مشروط حمایت کا یقین دلایا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بھی آج طلب کر لیا ہے۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر حکومت نے سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر کر دی۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ نظرثانی درخواست پر فیصلے تک عملدرآمد معطل کیا جائے۔ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے حکم امتناعی کی استدعا کی۔ درخواست کی سماعت کیلئے پانچ رکنی لارجر بنچ تشکیل دینے کی درخواست کی۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف کی مدت کا تعین وزیراعظم کا اختیار ہے۔ فیصلے میں ایگزیکٹو کے اختیارات کم کر دیئے گئے۔ قانون میں آرمی چیف کی مدت کا تعین کرنا ضروری نہیں۔ فیصلے میں اہم آئینی و قانونی نکات کا جائزہ نہیں لیا گیا۔ وزیر قانون فروغ نسیم نے آرمی چیف کی مدت ملازمت توسیع نظرثانی کیس بطور وکیل لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر قانون نے کہا ہے کہ بطور وکیل پیش ہونے کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے۔ بطور وکیل پیش ہونے کیلئے وزارت سے استعفے دینے کی ضرورت نہیں۔ عدالتی فیصلہ بغیر استعفے بطور وکیل پیش ہونے کی اجازت دیتا ہے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حکومتی کمیٹی ارکان متوقع قانون سازی پر بات کرنے کیلئے زرداری ہاؤس آئے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ پیپلز پارٹی جمہوری قانون سازی مثبت طریقے سے کرنا چاہتی ہے۔ کچھ سیاسی جماعتیں قانون سازی کے قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھنا چاہتی ہیں۔ جتنی اہم قانون سازی ہے اتنا اہم ہمارے لئے جمہوری عمل کی پاسداری ہے۔ پیپلز پارٹی اس معاملے پر دوسری سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے گی۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کیلئے پارلیمانی قواعد پر عمل کیا جائے۔

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) پی پی پی کے چئیرمین بلاول بھٹو کی طرف سے آرمی چیف کی تقرری، ری اپوائنٹمنٹ یا توسیع کے لئے مجوزہ ترمیمی بل کی منظوری کے لئے تمام پارلیمانی پروسیجر پر عمل کے مطالبہ سے بل پر کمیٹی کی سطح پر تفصیلی غور اور ارکان کی طرف سے فلور پر اظہار رائے کی راہ کھل جائے گی۔ اسی ایوان میں کچھ عرصہ قبل بہت سے بلز بغیر بحث کمیٹی کو بھیجے بغیر ایک ڈیڑھ گھنٹے میں منظور کئے گئے جو وجہ تنازعہ بنے اور بعد ازاں ان کو واپس لینا پڑ گیا۔ بلاول بھٹو کے ٹویٹ سے تاثر واضح ہے کہ پی پی پی کو بل کی منظوری پر کوئی اختلاف نہیں۔ وہ صرف ’’پروسیجر‘‘ پر عمل چاہتی ہے۔ پروسیجر کا مطلب بحث اور کمیٹی کی سطح پر غور اور اس کی جانب سے منظوری کی سفارش ہی ہے ۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...