بحث طویل ہو جائے تو بات دُور تک چلی جاتی ہے ۔ نتائج بھی مختلف نکلتے ہیں۔ لاہور سے دوسرے شہر کی طرف بس کا سفر جاری تھا۔د وستوں کی ایک ٹولی کے درمیان یہ بحث ہو رہی تھی کہ وطن ِعزیز میں کوئی محکمہ ، کوئی بھی شعبہ ہو ، اس میں رشوت ، جھوٹ ، مجرمانہ غفلت اور وعدہ خلافی اوپر سے لے کر نیچے تک موجود ہے، جو دیمک بن کر ہماری قومی ، معاشرتی اور خاندانی اقدار و روایات کو تباہ و برباد کر رہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم نے بحیثیت قوم اس تباہی اور بربادی کو ذہنی طور پر قبول کررکھا ہے۔ اوّل تو کوئی اصلاح ِاحوال اور بہتری کی طرف توجہ نہیں دیتا ، اگر کہیں سے اور کبھی کبھار بہتر ی کی کوشش ہوتی بھی ہے تو اپنے اپنے ذاتی مفادات کو جاری رکھنے کیلئے بہت سے لوگ ایسی کوششو ں کے مد مقابل کھڑے ہو کر رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ دوستوں کی اس ٹولی میں ایک صاحب نے بڑی عجیب اور مختلف مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ پولیس ملازمین کو محافظ کہا جاتا ہے جبکہ ڈاکٹروں کو مسیحا قرار دیا جاتاہے لیکن کتنے پولیس ملازمین ایسے ہیں جو ایمانداری ، فرض شناسی اور عام آدمی کی مدد اور معاونت کے جذبے سے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ شہریوں کی حفاظت کا فریضہ ادا کرنے والے کتنے ملازمین موجود ہیںمگر اسکے باوجود اختیارات کے غلط استعمال اور رشوت کیلئے ہر حربہ اختیار کرنا بعض پولیس ملازمین نے اپنا معمول بنا رکھا ہے۔ جبکہ ڈاکٹر ز کو مسیحا کہا جاتا ہے مگر کتنے ڈاکٹر مسیحا ہونے کا ثبوت دیتے ہیں ۔ بہت کم ڈاکٹر مریضوں کی جان بچانے اور دن رات خدمت اور علاج کے جذبے سے صحیح معنوں میں ڈیوٹی دیتے ہیں۔ بہت بڑی تعداد میں ڈاکٹرز ، دیانتداری اور مسیحائی کے جذبے کو فراموش کر کے پیسہ کمانے کے چکر میں رہتے ہیں۔ ہسپتالوں میں مریض تڑ پ رہے ہوتے ہیںاور یہ ’’مسیحا‘‘خوش گپیوں میں مصروف رہتے ہیں ۔ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا مریضوں کا علاج کرنے کی بجائے وہ اپنے ٹی ٹائم کو زیادہ ضروری سمجھتے ہیں۔ کسی پیشہ ورانہ مطالبے یا تنازعے کی وجہ سے ہڑتال پر ہوں تو زبردستی موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا مریضوں کی ڈرپس اتار دیتے ہیں، چاہے وہ بے چارے زندگی کی بازی ہار جائیں۔ انہیں کوئی فکر نہیں ہوتی ۔ پولیس ملازمین اور ڈاکٹروں کی مثالیں دینے کے بعد سوال یہ اٹھایا گیا کہ ایسے حالات میں ان لوگوں سے اچھائی اور مثبت رویّے کی توقع کیسے کیا جا سکتی ہے؟ تھوڑی دیر کے لیئے خاموشی چھا گئی۔ پھر قریب بیٹھے ایک مسافر نے آواز بلند کی کہ ہمارے محکموں اور معاشرے میں سبھی لوگ ایک جیسے اور منفی کردار کے حامل نہیں ہیں، کچھ اچھے اور قابلِ تعریف لوگ بھی پائے جاتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ پولیس ملازمین کو بددیانت، رشوت خور، ظلم و تشدد کرنے والے کہا جاتا ہے ، مگر ایسے ملازمین بھی موجود ہیں ، جو حلال روزی پر یقین رکھتے ہیں ۔ فرض شناسی اور رحم دلی کی مثال بن کر فرائض ادا کرتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی فرض شناسی پر بھی تنقید کی گئی تھی تو مَیں نے حساب برابر کرتے ہوئے بتایا کہ صوبائی دارلحکومت لاہور میں ایک بڑے سرکاری ہسپتال میں پرنسپل کے فرائض انجام دینے والے ایک سنیئر پروفیسر روزانہ باقاعدگی سے نماز پڑھاتے ہیںعام طور پر صبح دس گیارہ بجے پروفیسر رائونڈ کرتے ہیں مگر یہ ایسے پروفسیر ہیں ، جو نماز فجر پڑھانے اور قرآن پاک کی تلاوت کے بعد اپنے وارڈ میں رائونڈ کر رہے ہوتے ہیں ۔ دیگر مسافروں کے دریافت کرنے پر میں نے اُنہیں کہا کہ آپ میرے اس دعوے کی تصدیق کیلئے گورنمنٹ سروسز ہسپتال چلے جائیں۔ جہاں پروفیسر ڈاکٹر محمد امجد ملیں گے جو ناک، کان اور گلے کے ماہر پروفیسر ہیں۔ وہ بنیادی طور پر سروسز انسی ٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز کے پرنسپل تعینات ہیں جو دفتری امور کے ساتھ ہر وقت مریضوں کی خدمت کیلئے پیش پیش رہتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد امجد نے حکومتی مدد کی بجائے اپنی مدد آپ کے تحت ہسپتال کے گائنی وارڈ کے ایک حصّے میں مریضوں کے لواحقین کیلئے ایک پناہ گاہ بنائی ہے ۔ جہاں کھانا اور بستروغیرہ کی فراہمی کے ساتھ وہیل چیئرز اور سٹریچر ز کی سہولت کو بھی یقینی بنایا گیا ہے ۔ مخیر حضرات کے تعاون سے مریضوں کے لواحقین کیلئے سہولتوں میں اضافہ کیا گیا ہے ۔ مریضوں کیلئے سو فیصد مفت ادویات کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا گیا ہے۔
یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی!
Jan 03, 2021