2021ء کا آغاز ہو چکا ہے۔ اگرچہ وزیر اعظم عمران خان نے نئے سال سے بڑی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں اور کہا ہے کہ ان کی حکومت کی 5سالہ مدت کی تکمیل پر عام آدمی کی حالت بہتر ہو جائے گی لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے 2021ء کی بھی ’’سیاسی جنگ و جدل‘‘ کی بھینٹ چڑھ جائے گا ۔ گذشتہ سال حکومت اور اپوزیشن باہم دست و گریبان رہے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پر آشوب اور ہنگامہ خیز سال تھا۔ یکم جنوری2021کو جاتی امرا میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کا سربراہی اجلاس مولانا فضل الرحمن کی زیر صدارت منعقد ہو چکا ہے جس میں بظاہر کوئی چونکا دینے کا فیصلہ تو نہیں ہوا جو حکومت کی پریشانی میں اضافہ کرنے کا باعث بنا ہو ۔
پاکستان ڈیمو کریٹک مومنٹ نے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات میں حکومت کیلئے میدان کھلا نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر پی ڈی ایم ضمنی انتخابات کا میں حصہ لینے کا فیصلہ نہ بھی کرتی توپاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی ہر قیمت پر ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کر چکی تھیں۔ سربراہی اجلاس میں ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کے فیصلے کی توثیق کرا دی گئی۔ طرح بظاہر سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ موخر کر دیا گیا ہے لیکن قرائن یہ بتاتے ہیں کوئی جماعت سینیٹ کے انتخابات سے باہر نہیں رہے گی تمام جماعتیں حصہ لیں گی لہذا اسمبلیوں سے استعفے کا حربہ حکومت مخالف تحریک کے اواخر میں استعمال ہو گا ۔یہ الگ بات ہے پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کے ارکان اسمبلی نے استعفے اپنی اپنی جماعتوں کے قائدین کے پاس جمع کرا دئیے ہیں۔ آئے روز حکومتی ترجمان اپوزیشن کو استعفے سپیکرز کے پاس جمع کرانے کے طعنے دیتے رہتے ہیں تاکہ حکومت خالی ہونے والی نشستوں پر انتخابات کرا سکے۔ پاکستان مسلم لیگ ( ن)کے قومی اسمبلی کے دو ارکان کے استعفے جعل سازی سے سپیکر قومی اسمبلی کے پاس پہنچ گئے لیکن سپیکر نے استعفوں کو جعلی قرار دے کر معاملہ ختم کر دیا۔
شنید ہے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم ) نے حکومت گرانے کے لئے لانگ مارچ کی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے۔ اب لانگ مارچ اسلام آباد کی بجائے راولپنڈی کی طرف ہو گا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) ، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علما اسلام نے لانگ مارچ کا رخ راولپنڈی کی طرف موڑ دینے کی تجویز پیش کی جسے اتحاد میں شامل جماعتوں کی جانب سے پذیرائی حاصل ہوئی ہے تاہم ابھی تک پی ڈی ایم نے اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ۔ پی ڈی ایم نے راولپنڈی کی طرف بڑھنے کا اعلان دبائو بڑھانے کے لئے محض دھمکی بھی ہو سکتی ہے۔ اس بارے میں اپوزیشن کس حد تک سنجیدہ ہے فی الحال کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ عام تاثر یہ ہے کہ پی ڈی ایم اسلام آباد میں داخل ہونے کے لئے راولپنڈی کو اپنا بیس کیمپ بنا سکتی ہے جہاں اسلام آباد کی جانب بڑھنے کے لئے پورے ملک سے سٹریٹ پاور اکٹھی کر سکتی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کے سیکرٹری جنرل محمد علی درانی نے میاں شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان کو گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی پیشکش کی ہے سر دست مولانا فضل الرحمنٰ نے محمد علی درانی کی ڈائیلاگ کی پیشکش مسترد کردی اور میاں شہباز شریف نے جیل میں ہونے کے باعث اتنا بڑا کام کرنے سے معذوری کا اظہار کیا ہے۔ شنید ہے محمد علی درانی نے مولانا فضل الرحمنٰ کو ان ہائوس تبدیلی کے لئے پارلیمانی جماعتوں سے مشاورت کا مشورہ دیا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے میاں شہباز شریف کو پیر پگارا کا دو نکاتی پیغام پہنچایا ہے جس میں لانگ مارچ اور استعفوں کا آپشن استعمال کرنے کی بجائے ان ہائوس تبدیلی اور گرینڈنیشنل ڈائیلاگ کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ فی الحال پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکومت اور اپوزیشن نے ایک دوسرے کے خلاف پوزیشن لے رکھی ہے۔ حکومت نے اپوزیشن کو دیوار سے لگانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جبکہ اپوزیشن بھی حکومت کو گرانے کے لئے سر توڑ کوشش کر رہی ہے۔
سیاسی بیانات کی ’’جنگ ‘‘ ہے اگر اپوزیشن کو ئی بیان جاری کرتی ہے تو اگلے ہی لمحے حکومتی ترجمان کا تند و تیز بیان آجاتا ہے۔ اپوزیشن جو آگ لگانا چاہتی ہے اسے حکومت بجھانے کی بجائے بھڑکانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس وقت دونوں اطراف ’’ سیز فائر ‘‘ کی ضرورت ہے تاکہ 2021ء کا سال سکون کے ساتھ گذرے ۔ حکومت اور اپوزیشن کو مل کر ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کی حکمت عملی تیار کرنی چاہیے لیکن حکومت اپوزیشن رہنمائوں سے جیلیں بھرنے اور اپوزیشن حکومت گرانے میں مصروف ہے۔ کل کی بات ہے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کے فیصلوں کا اعلان ہوا تو وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز کا بیان آگیا کہ ’’اپوزیشن کا بیانیہ دفن ہو گیا ہے پی ڈی ایم کی قیادت کے چہرے بتا رہے تھے کہ اجلاس بے نتیجہ رہا جب کہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے طنزیہ بیان جاری کیا کہ ’’کھودا پہاڑ نکلا چوہا ‘‘ کورونا وائرس نے جہاں 10ہزار سے زائد افراد کی جان لے لی ہے وہاں سسکتی معیشت کا گلہ بھی گھونٹ دیا ہے۔
سیاست ہو یا معیشت ۔پارلیمان ہو یا کھیت کھلیان کہیں سے بھی اچھی خبر نہیں آرہی ،حکومت اور اپوزیشن کے باہم ’’دست و گریباں‘‘ ہونے سے قانون سازی کا عمل بری طرح متاثر ہوا ہے پارلیمنٹ ہائوس کو تالے ہی لگ گئے ہیں۔ قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا نہیں جا رہا سینیٹ کا اجلاس بھی اپوزیشن کی ریکوزیشن پر بلا یاگیا ہے ۔ پارلیمنٹ کا رول پس منظر میں جا رہا ہے مفاہمت کی سیاست کے ’’ علمبردار ‘‘ میاں شہباز شریف کو جیل میں ڈالنے سے اپوزیشن کی قیادت ’’ہارڈ لائنرز‘‘ کے ہاتھ میں آگئی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نہ ختم ہونے والی ’’جنگ‘‘ نے شدت اختیار کر لی ہے۔اس وقت ملک میں کوئی نوابزادہ نصراللہ خان ہے اور نہ ہی قاضی حسین احمد جو تمام جماعتوں کو ایک میز پر بٹھا سکے ۔ اگر وزیر اعظم عمران خان خود اپوزیشن سے مذاکرات کی دعوت دیں تو یقیناً اس کا مثبت جواب ملے گا۔
٭…٭…٭