اڑھائی سال کا عرصہ 

موجودہ حکومت اپنی مدت اقتدار کا نصف حصہ مکمل کر چکی ہے، اپوزیشن کو شکوہ یہ ہے کہ اس حکومت نے ڈیلیور نہیں کیا، مہنگائی بڑھ گئی ہے اور لوگوں کی زندگی مشکلات کا شکار ہو گئی ہے۔ خاص طور پر اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بے قابو ہونے سے لوگ پریشان ہیں، اپوزیشن جماعتوں نے گذشتہ اڑھائی سال میں حکومت کے خلاف کوئی ایجی ٹیشن یا احتجاج نہیں کیا۔ مولانا فضل الرحمٰن تو کہتے تھے کہ 2018 میں پارلیمنٹ بننے کے فوراً بعد اپوزیشن ارکان استعفیٰ دیں اور اس پارلیمنٹ کا حصہ نہ بنیں لیکن دو بڑی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن نے مولانا سے اختلاف کیا اور کہا کہ اس حکومت کو مہلت دی جائے اور دیکھا جائے کہ وہ کس حد تک اپنے وعدوں کو پورا کرتی ہے۔ اڑھائی سال کے بعد جب اقتصادی معاملات الجھتے گئے اور مہنگائی میں اضافہ ہوتا گیا تو لوگ پریشان ہو گئے تو اپوزیشن کے گیارہ جماعتی اتحاد کے قیام کا راستہ ہموار ہو گیا۔ پی ڈی ایم کے پہلے گوجرانوالہ کے جلسے میں شریک لوگوں نے یہی بتایا کہ وہ مہنگائی سے تنگ آ کر اپوزیشن کے اتحاد میں شامل ہوئے ہیں۔ 
پی ڈی ایم کے لیڈروں نے حکومت کیخلاف عوامی جذبات کو دیکھتے ہوئے اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے، وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ اور پھر لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے۔ گذشتہ روز لاہور میں پی ڈی ایم کا جو اجلاس ہوا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم کے اندر ابھی تک اسمبلیوں سے استعفے دینے اور لانگ مارچ کی تاریخ کا تعین کرنے کے سلسلے میں کوئی اتفاق رائے نہیں۔ حکومت کے وزراء یہ کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم ماضی کا حصہ بن چکی ہے اور وہ داخلی انتشار کا شکار ہے لیکن پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں یہ دعویٰ کر رہی ہیں کہ وہ پر عزم ہیں اور پہلے سے زیادہ جذبے کے ساتھ اس حکومت کو گھر بھیجنے کے لئے کام کریں گی۔ 
حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو پاکستان تحریک انصاف نے جو اڑھائی سال کا عرصہ گزارا ہے وہ اس کے منشور پر عمل درآمد کیلئے ایک اچھا خاصا عرصہ تھا۔ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے جب 1972 میں اقتدار سنبھالا تھا تو بچے کچھے پاکستان میں جو کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ایک بحران کا شکار تھا، لوگ دکھی اور مایوس تھے، مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے اس بچے کچھے پاکستان کی سنبھالی اور اسی سال اپریل میں ملک کو ایک عبوری آئین دیا۔ پھر ایک سال بعد 1973 میں انھوں نے ملک کو مستقل آئین دے دیا جس پر اپوزیشن جماعتوں نے بھی دستخط کر دیئے۔ بھارت کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانے سے پاکستانیوں میں جو مایوسی پائی جاتی تھی اور پاکستان کو سیکورٹی کے جو خطرات لاحق تھے، ان سے نمٹنے کیلئے مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد 1974 میں رکھ دی۔ اقتصادی حالات کو بہتر بنانے کیلئے بھٹو نے لاہور میں اپریل 1974 میں دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد کی جو بہت کامیاب رہی۔ دنیا کے اکثر اسلامی ممالک کے سربراہوں نے اس میں شرکت کی۔ اس کانفرنس نے جہاں اسلامی اتحاد کی بنیاد رکھی وہاں مسٹر بھٹو نے پاکستان کو اقتصادی اعتبار سے بہتر بنانے اور زر مبادلہ کے حصول کیلئے تیل پیدا کرنے والے ممالک سے یہ منوا لیا کہ وہ اپنے ملک کے انفراسٹرکچر کی تعمیر کیلئے مطلوبہ مین پاور پاکستان سے درآمد کریں۔ اس طرح ہزاروں ہنر مند اور غیر ہنر مند پاکستانی تیل پیدا کرنے والے ممالک کے پیٹرو ڈالرز میں اپنا روزگار تلاش کرنے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، لیبیا ، عراق اور کویت پہنچ گئے اور پاکستان جس کے پاس زر مبادلہ کمانے کا کوئی معقول زریعہ نہیں تھا، کروڑوں ڈالر افرادی قوت کی برآمد سے کمانے لگا۔ ترسیلِِ زر شروع ہو گئی۔ 
بھٹو نے یہ اقدامات 2 سال کے عرصہ میں کر لئے اور اس نے ملک کو معاشی اعتبار سے اور سیکورٹی کے حوالے سے ایک صحیح سمت پر ڈال دیا تھا۔ اگلے دو سال میں مسٹر بھٹو نے جو داخلی اور خارجی محاذ پر کام کئے، اس سے وہ مقبول ہو گئے اور انھیں یہ اعتماد حاصل ہوا کہ اگر وہ قبل از وقت انتخابات کرا دیں تو بھاری اکثریت سے جیت جائیں گے، چنانچہ انھوں نے اپنی مدت ختم ہونے سے ایک سال پہلے عام انتخابات کا اعلان کر دیا۔ یہ اعلان انہیں بہت مہنگا پڑا اور ان کے خلاف ایک نوجماعتی اپوزیشن قائم ہوئی جس نے مارچ 1977 کے انتخابات کے خلاف ایک احتجاجی تحریک چلائی جو مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے اور بالآخر بھٹو کی پھانسی پر منتج ہوئی۔ 
وزیراعظم عمران خان گذشتہ اڑھائی سال میں معیشت کو صحیح سمت میں گامزن کرنے کیلئے زیادہ سوچے سمجھے انداز میں چل سکتے تھے اور وہ اپنی گُڈ وِل سے فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ تاہم حکومت میں شامل ان کے وزراء اور بیورو کریسی نے اس طرح کام نہیں کیا جس طرح ان سے توقع کی جاتی تھی۔ احتساب کا عمل شروع کیا گیا اور وہ اب بھی جاری ہیں لیکن اکثر احتساب کے بڑے کیسز میں پکڑے گئے لوگوں میں سے بہت کم کو سزا ہوئی ہے اور ان سے لوٹا ہوا پیسہ جو انھوں نے ملک سے باہر منتقل کیا ہے، ابھی تک واپس نہیں لیا جا سکا۔ جن مختلف کارٹلز یا مافیا کے خلاف انھوں نے اقدامات کئے، انھوں نے اس حکومت کو ناکام بنانے کی بھرپور کوشش کی اور اس کی کارکردگی کو بہتر نہ ہونے دیا۔ پی ڈی ایم اس صورتحال سے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے لیکن اس کے پاس بھی عوام کی بڑھتی ہوئی مشکلات کا کوئی ٹھوس حل نہیں ہے، لوگ اس اپوزیشن اتحاد سے بھی بہت زیادہ توقعات وابستہ نہیں کر رہے۔ وزیراعظم عمران خان کے پاس وقت ہے کہ وہ اگلے اڑھائی سال میں تیزی سے وہ اصلاحی اقدامات کریں جن کے نتیجے میں احتساب کا نظام اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔ لوٹی ہوئی دولت واپس پاکستان آئے اور یہاں وہ سرمایہ لگایا جائے جس سے روزگار پیدا ہو اور معیشت مستحکم ہو۔ اس کیساتھ ساتھ وزیراعظم عمران خان کو لوگوں کی باقی ضروریات زندگی کی فراہمی کیلئے بھی اپنی حکمت عملی پر از سر نو غور کر کے تیزی سے اقدامات کرنا ہوں گے۔ یہی ایک طریقہ ہے جس سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اپنی اپوزیشن کو سیاسی اعتبار سے بے اثر کر کے عوام میں غیر مقبول بنا سکتی ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن