پی ڈی ایم کا الیکشن کمیشن اور نیب کے سامنے مظاہروں اور لانگ مارچ کا فیصلہ اور وزیراعظم کا اپوزیشن تحریک نہ چل پانے کا دعویٰ
جاتی امرا لاہور میں مولانا فضل الرحمان کی زیرصدارت منعقد ہونیوالے پی ڈی ایم کے اجلاس میں رواں ماہ 19؍ جنوری کو الیکشن کمیشن کے سامنے مظاہرہ کرنے اور استعفوں کا معاملہ ایک ماہ بعد طے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اجلاس میں سینٹ کے انتخابات اور ضمنی انتخابات کے حوالے سے بھی مشاورت کی گئی اور ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ سینٹ کے انتخابات میں حصہ لینے یا نہ لینے کا فیصلہ مؤخر کردیا گیا۔ اجلاس میں میاں نوازشریف‘ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے بذریعہ ویڈیو لنک شرکت کی۔ اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے مریم نواز اور پی ڈی ایم کے دیگر قائدین کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پی ڈی ایم پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئی ہے‘ ہم متحد ہیں‘ سب استعفے پارٹی قیادت کے پاس پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم حکومت کو مستعفی ہونے کیلئے ایک ماہ کی مہلت دے رہے ہیں‘ حکومت سے نجات کیلئے پی ڈی ایم پہلے سے زیادہ پرعزم ہے‘ پی ڈی ایم کی قیادت لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کریگی اور فیصلہ کریگی کہ لانگ مارچ اسلام آباد کا رخ کرے یا راولپنڈی کا۔ ہم غور کررہے ہیں کہ باقاعدہ جیلوں کا رخ کریں‘ الیکشن کمیشن کے سامنے مظاہرہ ہو گا اور اسی طرح نیب کے دفاتر کے سامنے بھی مظاہرے کئے جائینگے۔ انکے بقول عمران خان ایک مہرہ ہے‘ ہماری تنقید کا رخ اب ہر طرف ہوگا۔
دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ انکے اور فوج کیخلاف ایک بڑی سازش ہو رہی ہے اور پی ڈی ایم اس سازش کا حصہ ہے۔ گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے اور ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے اپوزیشن کو چیلنج کیا کہ وہ ثبوت دے کہ فوج کیسے ہماری پشت پناہی کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی فوج ہماری فوج ہے۔ فوج کو پتہ ہے کہ عمران خان پیسے چوری کرکے پراپرٹی نہیں بنا رہا‘ میرا جینا مرنا پاکستان میں ہے‘ اپوزیشن پھنس گئی ہے کہ ایسا وزیراعظم آگیا ہے جو این آر او نہیں دے رہا‘ میں اپوزیشن کی ہر رگ سے واقف ہوں‘ کرپٹ اپوزیشن تحریک نہیں چلا سکتی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وزیراعظم عمران خان اپنے کرپشن فری سوسائٹی کے ایجنڈے پر ہی کاربند ہیں چنانچہ وہ اپنے خلاف اپوزیشن کی کسی بھی تحریک کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کسی چور ڈاکو کو نہ چھوڑنے کا تواتر کے ساتھ اعلان کر رہے ہیں اور اس کیلئے نیب کو حکومت کی مکمل معاونت بھی حاصل ہے۔ قومی دولت و وسائل کی لوٹ مار کے حساب کتاب پر یقیناً کسی کو اعتراض نہیں۔ جن کیخلاف کرپشن اور منی لانڈرنگ کے مقدمات میں نیب کی کارروائی جاری ہے‘ وہ ضرور منطقی انجام کو پہنچنی چاہیے جبکہ ان مقدمات میں متعدد اپوزیشن قائدین بشمول میاں نوازشریف‘ مریم نواز‘ کیپٹن (ر) محمدصفدر اور اسی طرح حکومتی صفوں میں جہانگیر ترین سزا یافتہ بھی ہوچکے ہیں۔ چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال خود بھی نیب کا شکنجہ کرپٹ عناصر کیخلاف کسنے اور نیب کے مقدمات جلد نمٹانے کیلئے پرعزم ہیں جن کا قول ہے کہ نیب ’’فیس نہیں‘ کیس دیکھتا ہے‘‘۔ اس لئے نیب کا عمل مکمل غیرجانبداری کے ساتھ اور شفاف طریقے سے جاری رہے گا تو وزیراعظم کا کرپشن فری سوسائٹی کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہو جائیگا تاہم اسکے ساتھ ساتھ حکومت کی توجہ عوام کے گھمبیر سے گھمبیر ہوتے روٹی روزگار کے مسائل کے حل کی طرف مرکوز کرنے کی ہے جو پی ٹی آئی کے منشور کے بنیادی نکات میں شامل ہے۔
بدقسمتی سے پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کے بعد حکومت کی سخت مالیاتی پالیسیوں‘ آئی ایم ایف سے رجوع کرنے اور پھر کرونا وائرس کی افتاد ٹوٹنے کے باعث عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید گھمبیر ہو گئے اور مافیاز کی پیدا کردہ مصنوعی مہنگائی پر بھی قابو نہ پانے کے نتیجہ میں عوام کا روزگار حیات خراب سے خراب تر ہوتا گیا جبکہ پٹرولیم مصنوعات‘ بجلی‘ گیس اور ادویات کے نرخوں میں آئے روز اضافہ کے حکومتی اقدامات سے مہنگائی کے سونامیوں کی زد میں آئے عوام عملاً زندہ درگور ہونے لگے۔ مہنگائی کا بے قابو ہونے والا جن ابھی تک عوام کو روندنے میں مصروف ہے اور وفاقی ادارہ شماریات کی ہر ماہ جاری ہونیوالی رپورٹ موجودہ دور حکومت میں مہنگائی کے بے لگام ہونے کی ہی عکاسی کرتی ہے۔ اسکی گزشتہ روز جاری کی گئی رپورٹ میں بھی گزشتہ ماہ دسمبر کی مہنگائی کی شرح آٹھ فیصد بتائی گئی ہے اور انڈوں‘ گھی‘ مصالحوں‘ گوشت‘ دالوں‘ چینی کے نرخوں میں 15 فیصد اضافہ کی تصدیق کی گئی ہے جبکہ پٹرولیم مصنوعات بجلی اور ادویات کے نرخوں میں اضافے سے بڑھنے والی مہنگائی اسکے علاوہ ہے۔ مہنگائی کے ان سونامیوں کے آگے عام آدمی یقیناً بے بس ہو چکا ہے چنانچہ اسکے ذہن میں حکومتی گورننس کے حوالے سے اضطراب پیدا ہونا فطری امر ہے۔
اگر پی ٹی آئی حکومت احتساب کے عمل کے ساتھ ساتھ عوام کے روٹی روزگار کے مسائل حل کرنے کی طرف بھی توجہ دیتی جس سے عوام کو اپنے روزمرہ کے مسائل میں ریلیف ملتا تو انہیں اپوزیشن کے کسی معاملہ سے کوئی سروکار نہ ہوتا اور نہ ہی اپوزیشن میں حکومت کے پیدا کئے گئے عوام دوست ماحول میں اس کیخلاف تحریک چلانے کی جرأت ہوتی۔ اپوزیشن کو یہ موقع مسائل میں الجھے عوام کے اضطراب کو بھانپ کر ہی حاصل ہوا ہے چنانچہ اسے اپنے خلاف نیب کے مقدمات کو بھی انتقامی سیاسی کارروائی کے کھاتے میں ڈالنے کا موقع مل گیا جبکہ وہ زندہ درگور عوام کو حکومت سے نجات دلانے کے نام پر نیب کے مقدمات سے خلاصی کیلئے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو گئی۔
پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اکٹھی ہونیوالی اپوزیشن جماعتیں یقیناً ایک دوسرے سے سیاسی اختلاف رائے بھی رکھتی ہیں جن کی اپنی اپنی سیاسی ترجیحات ہیں تاہم اس وقت پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک جس نہج تک آگئی ہے‘ وہ حکومت کیلئے پریشانی کا باعث ہی بنے گی کیونکہ پی ڈی ایم اپنے اب تک کے جلسوں اور دوسرے احتجاجی پروگراموں کے ذریعے عوام کو اپنے ساتھ متحرک کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ اب پی ڈی ایم کی جانب سے حکومت کیخلاف لانگ مارچ‘ الیکشن کمیشن و نیب کے سامنے مظاہروں کا عندیہ دیا گیا ہے تو اس سے سیاسی عدم استحکام کی فضا مزید گھمبیر ہونے کا اندیشہ ہے۔ بے شک وزیراعظم پراعتماد ہوں کہ کرپٹ اپوزیشن تحریک نہیں چلا سکتی تاہم پی ڈی ایم اپنے مخالف حکومتی پراپیگنڈے کے باوجود ایک پلیٹ فارم پر متحد کھڑی نظر آرہی ہے۔ وہ اپنے شیڈولڈ پروگرام کے مطابق تحریک آگے بڑھائے گی تو اس سے جمہوریت کے زد میں آنے کا امکان نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس صورتحال میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کو سسٹم کو بچانے کی فکر کرنی چاہیے جس کیلئے حکومتی اتحادی مسلم لیگ (ق) کے قائدین چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کا یہ صائب مشورہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ملکی تحفظ کیلئے مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمہ پر توجہ دیں۔ اس کیلئے بنیادی کردار تو یقیناً حکومت نے ہی ادا کرنا ہے اس لئے بہتر ہے کہ بلیم گیم کی سیاست سے باہر نکل کر حکومت ترجیحی بنیادوں پر عوام کے روٹی روزگار کے مسائل حل کرنے کے عملی اقدامات اٹھانا شروع کر دے۔ اس وقت سیاسی عدم استحکام کا ملک بہرصورت متحمل نہیں ہو سکتا۔