جھوٹا خود کو کہتا ہے کہ سچا ہے
سچا سچ بھی بولے گا تو جھوٹا ہے
جو کرسی پر بیٹھ گیا سو بیٹھا ہے
دوررہا جو اس سے آہیں بھرتا ہے
آگے پیچھے جتنے اس کے خامی ہیں
کہتا ہے ہر ایک سبھی کچھ اچھا ہے
اوج پہ جاکر آخر اس کو ڈھلنا ہے
مشرق سے اک بار جو سورج چڑھتا ہے
اس کا پیلس شب بھر جگمگ کرتا ہے
میرے گھر کا دیوا جلتا بچھتا ہے
جب جب اس کو غور سے میں نے دیکھا ہے
لگتا ہے اک ۔۔۔۔۔خاک میں رلتا ہے
وہ چاہے نہ چاہے لیکن میرا دل
دیوانہ ہے اس کا اس کو چاہتا ہے
اس سے اس کا حال ضیاء گرپوچھو تو
مرتے مرتے بھی کہتا ہے اچھا ہے
شرافت ضیاء فراشوی