بولوں یا نہ بولوں

Jan 03, 2021

جھوٹا خود کو کہتا ہے کہ سچا ہے
سچا سچ بھی بولے گا تو جھوٹا ہے
جو کرسی پر بیٹھ گیا سو بیٹھا ہے
 دوررہا جو اس سے آہیں بھرتا ہے
آگے پیچھے جتنے اس کے خامی ہیں
کہتا ہے ہر ایک سبھی کچھ اچھا ہے
اوج پہ جاکر آخر اس کو ڈھلنا ہے
مشرق سے اک بار جو سورج چڑھتا ہے
اس کا پیلس شب بھر جگمگ کرتا ہے
میرے گھر کا دیوا جلتا بچھتا ہے
جب جب اس کو غور سے میں نے دیکھا ہے
لگتا ہے اک ۔۔۔۔۔خاک میں رلتا ہے
وہ چاہے نہ چاہے لیکن میرا دل
دیوانہ ہے اس کا اس کو چاہتا ہے
اس سے اس کا حال ضیاء گرپوچھو تو
مرتے مرتے بھی کہتا ہے اچھا ہے
شرافت ضیاء فراشوی

مزیدخبریں