’’فورم فار ہیومن رائٹس ان جے اینڈ کے‘‘ نامی انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ کشمیر کئی لحاظ سے بھارتی جمہوریت کیلئے ایک امتحان رہا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت اس امتحان میں بری طرح ناکام ثابت ہوا ہے۔2020ء میں حقوق انسانی کی مجموعی صورتحال گھمبیر رہی اور بے گناہ لوگوں کے قتل میں اضافے کا رحجان دیکھا گیا۔ گزشتہ برس بھی بھارتی فورسز کی طرف سے سینکڑوں بے گناہ کشمیریوں کا خون بہایا گیا۔سابقہ ریاست کی خصوصی حیثیت کو ختم کردینے کے فیصلے نے کشمیری عوام اور بالخصوص نوجوانوں کو بری طرح مایوس کردیا ہے۔تنظیم نیگزشتہ سال ایک رپورٹ تیار کی۔یہ رپورٹ حکومتی اعداد و شمار، میڈیا، حق اطلاعات قانون کے تحت حاصل شدہ معلومات، صنعتی انجمنوں وغیرہ کی رپورٹوں پر مشتمل ہے جو سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مدن لوکور، ریٹائرڈ میجر جنرل اشوک کمار مہتا، سابق جج اجیت پرکاش شاہ، سابق جسٹس حسنین مسعودی، سابق ایر وائس مارشل کپل کاک، مورخ رام چندر گوہا، سابق خارجہ سکریٹری نروپما راو، سابق لفٹننٹ جنرل ایچ ایس پناگ اور دانشور رادھا کمار سمیت 21 رکنی ٹیم پر مشتمل کمیٹی نے تیار کی ہے۔ بھارتی حکومت کی طرف سے انسانوں کی سیکورٹی پر عسکریت پسندی مخالف سرگرمیوں کو ترجیح دینے کے نتیجے میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔ لوگوں کو حبس بے جا میں رکھا گیا، غیر قانونی گرفتاریاں ہوئیں اور مخالفین کو خاموش کرنے کیلئے پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) نیز غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق قانون (یو اے پی اے) جیسے سیاہ قوانین کا استعمال کیا گیا۔
اس کے علاوہ پچھلے سترہ مہینوں کے لاک ڈاؤن کے دوران عوامی صحت پر کافی برااثر پڑا ہے۔ لوگوں کے صحت اور طبی خدمات کے حصول کے حقوق کی صریح خلاف ورزی کی گئی۔ خوف اور صدمہ سے پاک ماحول کے بچوں کے حقوق کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا ہے۔ لا ک ڈاؤن کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان تعلیم کا ہواہے 2019ء اور 2020 ء کے درمیان سکول اور کالج بمشکل 100دن کھلے ہوں گے جبکہ کورونا وائرس کی وبا کے سبب لاک ڈاؤن کے بعد انٹرنیٹ کی سپیڈ کم ہونے کی وجہ سے آن لائن کلاسز اٹینڈ کرنا ناممکن ہوگیا ہے اور انٹرنیٹ پر منحصر کرنے والی تجارت تقریباً ختم ہوگئی ۔نئے ڈومیسائل قانون کی وجہ سے پہلے سے ہی ملازمت کی کمی سے دوچار جموں و کشمیر میں مقامی لوگوں کیلئے روزگار کے مواقع مزید کم ہوگئے ہیں۔ صحافیوں کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ ان کے خلاف یواے پی اے جیسے سیاہ قوانین کے تحت الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ جبکہ نئی میڈیا پالیسی نے تو آزاد میڈیا اور اظہار رائے کی آزادی کا گلاگھونٹ کر رکھ دیا ہے۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق سال 2020ء میں مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی بربریت میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے جو کہ تشویشناک ہے۔سال 2020ء میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کی جانب سے تقریباً 300کشمیریوں کا قتل عام کیا گیا جس میں سے تقریباً30کو دوران حراست تشدد کے ذریعے موت کی گھاٹ اتارا گیا ۔اِس کے علاوہ مختلف نام نہاد سرچ آپریشنز اور جھڑپوں میں تقریباً 1610 کشمیری زخمی ہوئے جبکہ پیلٹ گن کا شکار بننے والے افراد کی تعداد 450 ہے۔سال 2020ء میں تقریباً21سو سے زائد کشمیری لڑکیوں کی شادی جبراً ہندوؤں سے کی گئی۔ بھارتی افواج کی جانب سے 2 ہزار سے زائد مرتبہ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی گئی جس میں تقریباً 25 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے اور تقریباً200 سے زائد افراد زخمی ہوئے اِس کے علاوہ کروڑوں روپے سے زائد املاک کا نقصان بھی ہوا۔بھارتی افواج کی جانب سے نام نہاد سرچ آپریشنز کی آڑ میں گرفتار ہونے والوں میں 14310 افراد شامل ہیں جن میں زیادہ تر کارروائیاں سال کے آخر میں کی گئی۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی ظلم و جبر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو ایسی کارروائیوں سے باز رہنا چاہئے ورنہ جنوبی ایشیاء کا امن دائو پر لگ سکتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج کے مظالم پر بھارت کا میڈیا بھی پھٹ پڑا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں فوری بند کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ 25 سالوں سے کشمیری عوام بھارت کی حکومت اور فوج کے مظالم کا شکار ہیں۔ ملزم فوجیوں کو نشان عبرت نہ بنایا گیا تو ایک دن بھارت کشمیر سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔
جولائی 1990ء میں کشمیر میں کالا قانون ’’افسپا ‘‘نافذ کیا گیا۔ افسپا کا کالا قانون مقبوضہ جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا باعث بن رہا ہے ۔اس قانون کے باعث بھارتی فوجیوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ خواتین کی عصمت دری کریں یا نہتے کشمیریوں کو گولیوں سے اُڑا دیں۔ ہندوستان ٹائمز نے بھارتی حکومت سے کہا ہے کہ مظالم کے بجائے کشمیریوں کے دل جیتنے اور انہیں انصاف دینے کی ضرورت ہے۔ خواتین کی عصمت دری اور نہتے کشمیریوں پر مظالم ڈھانے میں ملوث فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی وقت کی ضرورت ہے۔ انصاف نہ ملنے کے باعث کشمیریوں میں بھارت کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔بھارتی مظالم کشمیریوں کے جذبہ حریت کو دبا نہ سکے بلکہ حیرت انگیز امر ہے کہ جوں جوں ان مظالم میں اضافہ ہوتا چلا گیا کشمیریوں کا جذبہ آزادی اتنا ہی پروان چڑھتا چلا گیا۔ بھارتی حکومت نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کُچلنے کیلئے ہر حربہ آزما لیا مگر اس میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی۔ پورے مقبوضہ کشمیر میں جا بجا بے گناہ کشمیریوں کے قبرستان دکھائی دیتے ہیں مگر لاکھوں قربانیاں دینے کے باوجود کشمیری آج بھی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب بھارتی فوجی بے گناہ کشمیریوں پر طاقت کا وحشیانہ استعمال اور نوجوانوں کو گرفتار کر کے شہید نہ کرتی ہو۔ موجودہ مودی سرکار مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا مستقل حصہ بنانے اور کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کچلنے کیلئے ہر حربہ آزما رہی ہے۔
2020ء کشمیریوں کیلئے بھی خون آشام رہا
Jan 03, 2021