اسلام آباد (خصوصی نمائندہ+ نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم کے مشیر برائے داخلہ شہزاد اکبر نے کہا ہے کہا کہ خواجہ آصف نیب کو مطمئن نہیں کر سکے۔ 1993 میں اثاثے صرف51 لاکھ روپے تھے۔ یو اے ای میں ماہانہ بائیس لاکھ روپے تنخواہ کا کوئی ثبوت نہیں دیا گیا۔ خواجہ آصف، رانا ثنا اللہ اور شہباز شریف کے اثاثے بڑھنے کا ایک ہی طریقہ کار ہے۔ خواجہ آصف نے بھی اپنے قائد کی طرح ٹی ٹی کا طریقہ کار اپنایا ہے۔ خواجہ آصف کے اثاثے اسی وقت بڑھتے رہے جب وہ وفاقی وزیر تھے۔ دو ہزار اٹھارہ کے بعد اثاثے بڑھنا رک گئے۔ دنیا کے ہر ملک میں تنخواہ سیلری اکائونٹ میں جاتی ہے یا پھر کچھ ادارے چیک دیتے ہیں۔ مگر یہ اپنی نوعیت کا واحد کیس ہے جس میں خواجہ آصف وفاقی وزیر بھی ہیں اور دبئی میں ملازمت بھی کر رہے ہیں۔ جہاں سے حاصل ہونے والی پچاس ہزار درہم (بائیس لاکھ روپے) ماہانہ آمدن انہیں کیش ملتی رہی ہے۔ ہفتے کے روز پی آئی ڈی میں معاون خصوصی برائے امور نوجوان عثمان ڈار کے ہمراہ پریس کا نفرنس میں شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ خواجہ آصف سے جب 22 لاکھ روپے ماہانہ کا ثبوت مانگا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ وہ کیش میں لین دین کر رہے تھے۔ 'خواجہ آصف کی تنخواہ کی مد میں 14 کروڑ روپے ملنے کا ثبوت دکھائیں۔ ان کی ساری رقم دبئی کے اکائونٹ میں کیش ہیں۔ تنخواہوں سے متعلق خواجہ آصف کے پاس کوئی دستاویز نہیں ہے۔ وہ کونسا ایسا کاروبار کرتے تھے جو صرف کیش میں ہی ہوتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ وزارت سے فارغ ہوئے تو ان کی دبئی کی نوکری بھی چلی گئی۔ وہ دبئی کی کمپنی میں اب نوکری کیوں نہیں کرتے۔ 'خواجہ آصف اب تک نیب کو مطمئن نہیں کر سکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ خواجہ آصف نے گوجرانوالہ کی سوسائٹی میں 80 لاکھ کا پلاٹ لیا اور اسی کمپنی کو پلاٹ 4 کروڑ کا واپس کر دیا۔ سیالکوٹ میں پلاٹ خواجہ آصف نے 12 کروڑ50 لاکھ کا فروخت کیا۔ خواجہ آصف نے فروخت کا جو معاہدہ اور چیک دکھایا وہ چیک بک6 ماہ بعد جاری ہوئی تھی۔ 'خواجہ آصف قانونی طور پر اپنی جنگ لڑیں۔ عوام کو گمراہ نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ پبلک آفس ہولڈر کے لئے یہ قانون نیا نہیں ہے۔ یہ قانون جب سے پاکستان بنا ہے موجود ہے۔ بعد ازاں احتساب بیورو آرڈینینس بنا پھر اس کی تازہ صورت این آر او کی صورت میں سامنے آئی۔ عثمان ڈار نے کہا کہ اپوزیشن اور بالخصوص ن یہ تاثر دے رہی ہے کہ خواجہ آصف کے خلاف کیس سیاسی انتقام ہے ، میں نے ان کے خلاف جنگ لڑی ہے۔ پوری دنیا میں ایسی مثال نہیں کہ وزیر دفاع ملک سے باہر نوکری کر رہا ہو۔ جب بڑے لوگ کر پشن کرتے ہیں تو ملک کی معیشت تباہ ہو جاتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ گزشتہ رات نوجوان لڑکے کو قتل کئے جانے کے واقعے پر انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ اسلام آباد میں امن و امان کی صورت حال کے حوالے سے انہوں نے چند تجاویز دے رکھی ہیں۔ جہانگیر ترین کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف سات مختلف ادارے تحقیقات کر رہے ہیں۔ پی ڈی ایم بھی پھس ہوگئی، آجکل دبئی کی نوکری کیوں نہیں کر رہے۔ خواجہ آصف کے کیس میں بھی کیلبری فونٹ والا سلسلہ نکل آیا۔ سیالکوٹ میں گھر سے ملحقہ جو پلاٹ فروخت ظاہر کیا وہ آج بھی خواجہ آصف کے قبضے میں ہے۔ نیب قوانین تحریک انصاف کی حکومت نے نہیں بنائے۔ نیب قوانین سابق حکمرانوں نے بنائے۔