اسلام آباد : جو ڈٰیشل کمپلکس اور جیل بنانے میں مسلسل تاخیر

یہ وطن ہمارا ہے جسے ہم نے ہی بگاڑا ہے ۔اسلام آباد میں جوڈیشیل کمپلکس ، وکلا چمبرزاور جیل ابھی تک نہیں بن سکیں ۔ کئی حکومتیں آئیں اور گئیں مگر ان منصوبوں کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔اسلام آباد دارلخلافہ ہے ۔آج بھی عدالتیں یہاں دوکانوں میں ہیں ۔ اس دوران  اسلام آباد میں بھی  اسلام آباد ہائی کورٹ کا’’ ظہور‘‘ ہوا مگر اسے بھی ابھی تک اپنی بلڈنگ نصیب نہیں  ہے ۔ایسے ہی  قبضہ اس بچاری ہائیکورٹ کو بھی ڈسٹرک کورٹ کی بنی بلڈنگ پر کرنا پڑا ۔ابھی تک ڈسٹرک کورٹ وکلا چیمبرز اور اب اسلام آباد ہائی کورٹ بھی’’ عارضی‘‘ عمارت پر قائم ہیں جبکہ ڈسٹرک کورٹ کی عدالتیں سی دوکانوں میں ہیں اور برآمدوں کو بھی بند کر کے انہیں عدالتوں کا حصہ بنا چکے ہیں۔  پارکنگ ایریا ،گرین ایریا، فٹ پاتھ اور گرائونڈ پر چیمبر بنائے جارہے ہیں  ۔جب ایسا ہو رہا تھا تو اس موقع  پر حکومتیں خاموش  تماشائی بنی رہیں، ایسا ہی حال وکلا کا اور وکلا کے لیڈران کا بھی ہے ،ہر کوئی اس غیر قانونی کاموں میں برابر کا شریک رہا اور ہے۔راقم بھی اس میں برابر کا شریک رہا اور شرمندہ بھی ہے ۔  جب اسلام آباد میں وکالت شروع کی تو میں نے بھی سی ڈی اے کی جگہ پر بطور چیئرمین ینگ لائرز فورم کے اپنا اور ساتھی وکلا کے چیمبرز بنوائے اور ان چیمبروں کا افتتاح سابق  عبوری وزیراعظم ملک معراج خالد  سے کرایا ۔  راقم نے چیئرمین پی ٹی آئی اور  وزیراعظم عمران خان کو ڈسٹرک کورٹ کا وزٹ بھی کرا یا تھا ۔ ان دونوں شخصیات نے کچہری کی حالت زار پر افسوس کا اظہار توکیا تھا مگر بہتری کے لئے  اس وقت کچھ کر نہ سکے  تھے ۔وکلا  چیمبرزکی وجہ سے بنچ اور بار کا تصادم بھی کوئی کرا چکا ہے  ۔جب  چند چمبر کو رات کے اندھیرے میں سامان سمیت گرا دیا گیا تھا کہ یہ چیمبر غیر قانونی جگہ پرقائم ہیں ۔ اگر غیر قانونی چمبروں کو گرانا ہی تھا توسب سے پہلے یہاں سے عدالتوں کو شفٹ کیا جاتا   پھر وکلاچمبروں کو گرادیا جاتا تو کوئی کچھ نہ کہتا ۔پھر سب نے دیکھا چائے کی 
پیالی میں طوفان اٹھا۔ وکلا  چیمبروں کے گرانے کا کیس سپریم کورٹ پہنچا ۔جس میں سپریم کورٹ کے سینئر وکلا  صاحبان حامد خان ، سردار لطیف خان کھوسہ  اورشعیب شاہین نے بنچ سے گزارش کی تھی جب تک عدالتیں قائم ہیں نوجوان وکلا کے چیمبرز کو بھی رہنے دیا جائے اور نہ گرایا جائے۔مگر ان سب کی ایک نہ سنی گئی او ان کے حکم سے ان نوجون وکلا  کے چمبروں کو گرایا دیا گیا۔جس سے وکلا  دلبرداشتہ ہوئے  انہیں مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا ۔لگتا ہے ایسے کئے گئے انصاف کودیکھتے ہوئے ہی ہم ایک سو چھبیس ویں نمبر پر ہیں ۔بنچ اور بارکے تصادم   کے اثرات اب بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں ۔اس واقعہ میں جن سینئر وکلا کو چوہدری ظفر وڑائچ  کو  بغیر قصور کے چار روز تک جیل میں رکھا  پھر باعزت بری کر دیا۔ اعلی عدلیہ کو ایسا کرنے والوں کے خلاف ایکشن لینا چائیے تھامگر ایساا نہیں کیا گیا ۔ آگ بظاہر تو بجھ چکی ہے مگر دھواں اب بھی ہے  ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ دونوں غلطیوں کا اعتراف  کریں ۔  اس ہائی کورٹ میں بھی کئی  چیف جسٹس آئے اور گئے مگر ابھی تک یہ ہائی کورٹ ڈسٹرک کورٹ کی جگہ پر ہی قائم ہے ۔جبکہ  یہ جگہ جوڈیشیل کمپلکس  اور وکلا چیمبروں کے نام تھی ۔  اس جگہ پر  جو ڈیشل کمپلکس کے ساتھ وکلا کے چیمبر ز بننے تھے  مگر اب  جی الیون میں جو ڈیشیل کمپلکس ایسٹ اور ویسٹ کی عدالتوں کو بنایا جا رہا ہے ۔ اس کا افتتاح بھی وزیراعظم کر چکے ہیں  جب کہ اس جو ڈیشیل کمپلکس کی ا صل جگہ جی ٹن ون کے 80 کنال  پلاٹ میں ہی تھی  لیکن وکلا اور بنچ کے تصادم کے بعد جوڈیشل کمپلیکس کی جگہ تبدیل کر دی گئی ۔ اب بھی ایسٹ عدالتیں اسی جگہ جی ٹن میں بنائی جائیں۔ایسا کرنے سے  بنچ اور بار کا رشتہ مضبوط ہو گا  ۔اب  وکلا کی زمین پر سرکار تین سٹوری بلڈنگ بنا کر دے رہی ہے ۔  اوپر  وکلا کے چمبرز سیلف فنانس کے بنیاد  پر بنائیں جائیں گے ۔ اس پروجیکٹ کے آرکیٹیٹ  رضوی صاحب  کے حوصلے کو داد دیتے ہیں۔جس نے جو کچھ کہا گیا بناتے رہے ۔ یہ اب چار جنوری کو پتہ چلے گا کہ حقیقت کیا ہے۔ چار جنوری کی تقریب کے مہمان خصوصی چیف جسٹس آف پاکستان ہونگے ۔ امید کرتے ہیں وکلا کے لیڈران اس موقع پر سوال کریں گے کہ چیمبرز کوگرانے کی کیا جلدی تھی ؟ سوال یہ بھی اٹھا ئیں گے کہ جی ٹن ہی کی جگہ پر جوڈیشیل کمپلکس کوکیوں نہیں بنایا جا رہا ۔یہ بھی پوچھیں گے کی کیا وجہ ہے ابھی تک ہائی کورٹ اپنی نئی بلڈنگ میں شفٹ نہیں ہوئی ۔اسلام آباد میں اسی طرح  ابھی تک جیل نہیں ہے ۔ جس سے   کئی بے گناہ شہری صرف الزامات کی بنیاد پر اڈیالہ جیل سے ہر پیشی پر سو کلومیٹر کا اذیت ناک سفر کرنے پر مجبور   ہیں ۔پلیزان پر بھی ترس کھا ئیں  یہ وہی انسان ہیں جھنیں بعض اوقات ایسی سزائوں اور مرنے کے بعدانہیںباعزت بری کر دیا جاتا ہے ۔  سالوں سال کیس چلتے  ہیں اور یہ قید میںدن گزارتے ہیں۔ایسے قیدیوں کو فوری رہا 
کرنے کے حکم صادر فرمائیں ۔ جیل میں ان قیدیوں کو رکھا جائے جھنیں سزائیں عدالتوں سے ہو چکی ہیں ۔  امید ہے یہاں بھی کراچی کے نسلہ ٹاور جیسے احکا مات صادر فرما ئے جائیں گے ۔ جن اداروں کے افراد کی وجہ سے اسلام آباد ہائی کورٹ جوڈیشیل کمپلکس وکلا چیمبر ز اور جیل کے بنانے میں تاخیر کا شکار ہوئی ان کے خلاف فوری انکوئری کرائیں گے اور انہیں سزائیں دیں گے۔ آج ہم مٹی کے اوپر ہیں کل ہم مٹی کے نیچے ہونگے۔آج جوکرسیوں پر ہیں کل گلیوں کی خاک چھان رہے ہونگے ۔ زندہ وہی رہتے ہیں جو عہدوں پر رہ کر  انسانیت کی خدمت کر جاتے ہیں ۔

ای پیپر دی نیشن