علما ئے کرام اور معاشی تنگدستی

آج میں بازار جوتاخریدنے گیا۔دکان میں داخل ہْوا تو مردانہ ورائٹی کی جانب ایک خوبصورت چہرہ، سفید ٹوپی ، سنت سے سجی داڑھی اور سفید لباس میں ملبوس انسان  نے خوش آمدِید کہتے ہْوئے مختلف ڈیزائن دکھائے۔میں نے ان کا دینی حلیہ دیکھتے ہوئے پوچھا: آپ کا نام کیا ہے؟ اس نے کہا میرا نام ریحان ہے۔آپ کی تَعلِیم؟دِینی تَعلِیم دَرسِ نظامی (فضیلت)، اور دْنیوی تَعلِیم بی اے تک۔کتنا عرصہ ہو آپ کو یہاں کام کرتے؟دو ماہ ہونے کو ہیں۔آپ کو کوئی اور کام نہیں مِلا؟ اس کے جواب میں ریحان نے صرف وہی بات کہی جس کو میں نے انسانیت پر اجاگر کرنے کی سعادت حاصل کی ہے:کہ میں ایک مدرسے میں معلّم کے پیشے سے منسلک تھا اور قریب کی مسجد میں امام بھی۔الحمدللہ میں اپنی زندگی میں بہت خوش تھا۔اس مہنگائی کے باعث گھریلو حالات سے مجبور ہو کر رزقِ حلال کی تلاش میں ایک امام اور مدرسے کا استاد ہونے کے ناطے اپنی تمام تر حدود و قیود کا خیال رکھتے ہوئے اس طرف رخ کیا۔آپ کی تَنخواہ یہاں کِتنی ہے؟ماہانہ 17 ہزار روپے مِلتے ہیں یہاں ۔ روزانہ کا سَو روپیہ، اور کمِیشن الگ ہے۔مسجد اور مدرسے سے کل تنخواہ کتنی تھی؟اس سفید ریش والے بزرگ نے افسردگی کے عالم میں بتایا  8 ہزار۔میں خاموش ہو گیا، میرے پاس الفاظ ختم ہوچکے تھے ۔مجھ سے صرف اتنا ہو سکا کہ جوتوں کا ڈبہ ان کے ہاتھ سے لے لیا۔ وہ اصرار کرتے رہے کہ میں پہنا کر چیک کرواتا ہوں،یہ میری ڈیوٹی میں شامل ہے، لیکن میں نے ایسا نہیں کرنے دِیا.میرا ضمیر مجھے بار بار ملامت کر رہا تھا کہ اِن ہاتھوں کو بوسہ دوں۔ کسی وقت یہ ہاتھ مْقَدَّس کتابیں قرآن، تفاسیر، احادیث، مسائل اور دیگر اسلامی کتب اْٹھایا کرتے تھے ۔لیکن آج وہی ہاتھ جوتے اور چپل اٹھانے پر مجبور ہیں ۔ ایک دوست نے مجھے یہ واقعہ سنایا تو اس کی آنکھوں میں آنسو بہہ رہے تھے۔حقیقت تو یہ ہے کہ یہ کہانی سن کر میرا بھی پورا جسم کانپنے لگا کیونکہ جس معاشرے میں علمائے کرام پیٹ بھر کر روٹی نہ کھا سکیں ، جس معاشرے میں علمائے کرام کے بچے اچھے سکولوں میں نہ پڑھ سکیں کیونکہ ان سکولوں کی فیسوں کی ادائیگی ان کے والد کی مالی ا ستعداد سے بہت زیادہ ہے ، جس معاشرے میں علمائے کرام کے بچے اچھے کپڑے نہ پہن سکیں ، جس معاشرے میں علمائے کرام اور ان کے خاندان کے افراد بیماری کی صورت میں کسی اچھے ہسپتال میں علاج نہ کروا سکیں۔ جس معاشرے میں علمائے کرام کے خاندان کے رہنے کے لِئے قبروں کی مانند حجرے ہوں، جس معاشرے میں علمائے کرام اپنی اولاد کی کسی اچھے خاندان میں شادی نہ کرسکیں ۔اس معاشرہ  پرزوال نہیں آئے گا، تو اور کیا آئیگا ۔ یہاں میں عرض کرتا چلوں کہ آج سے ساڑھے سات سال پہلے میں جس نئے گھر میں منتقل ہوا اس علاقے کی جامع مسجد کے امام کو میں نے انتہائی ابتر حالت میں دیکھا ۔ میں جس زمانے کی بات کررہا ہوں وہ پیپلز پارٹی کا دور تھا۔ ایک دن میں امام صاحب سے پوچھا آپ کو امامت کرنے کی کتنی تنخواہ ملتی ہے تو انہوں نے مجھے یہ بتا کر حیران کردیا کہ صرف 12000روپے ۔ مہنگائی کے دور میں 12000 روپے میں وہ کیسے اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہونگے یہ تو وہی جانتے ہیں لیکن انہوں مزید بتایا پانچ سال پہلے جب میں  نے اس مسجد کی امامت شروع کی تھی تو میری تنخواہ 8000تھی مجھے جوحجرہ رہنے کے لیے دیا گیا اس میں سخت گرمیوں میں نہ تو بجلی تھی اورنہ پنکھا تھا۔اسی مسجد میں اب ایک حافظ قرآن غلام مرتضی بطور موذن تشریف لائے ہیں جو چشتیاں کے رہنے والے ہیں ،قرآن حفظ کرچکے ہیں اب عالم بننے کا کورس کررہے ہیں ان کو بھی تنخواہ 8000 روپے دی جارہی ہے ۔پانچوں نمازوں کی اذانیں دینا ،بچوں کو دینی تعلیم دینا اگر بڑے امام صاحب نہ ہوں تو امامت کے فرائض ادا کرنا بھی انہی کے فرائض میں شامل ہے۔یہ تمام واقعات علمائے کرام اور آئمہ کرام کے ساتھ حکومت اور معاشرے کی  طرف سے ہونے والی زیادتی اورسنگدلی کا اظہار بنتے ہیں ۔حکومت کوچاہیئے کہ جن مساجد میں کم تنخواہوں پر علمائے کرام کو امامت کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے انہیں قومی تحویل میں لے کر انہیں محکمہ اوقاف کے طے شدہ سکیلوں کے مطابق تنخواہ اور دیگر الاؤنسسز بھی دیے جائیں ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں سرکاری سکولوں کے اساتذہ کی طرح پنشن بھی ملنی چاہیئے ۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن