پنڈورا پیپرز سے متعلق عمران خان کی طرف سے وزیراعظم جائزہ کمیشن کے تحت قائم کیے گئے اعلیٰ سطح کے سیل کی تحقیقات آخری مرحلے میں داخل ہو گئی ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے تحقیقات کے آخری مرحلے میں ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔ وزیر اعظم جائزہ کمیشن کے تحت قائم ہونے والے خصوصی سیل نے پنڈورا پیپرز میں آنے والے 700 میں سے 240 پاکستانیوں میں سے اکثریت کی تحقیقات مکمل کر لیں۔ 200 سے زائد لوگوں نے جائزہ کمیشن کو اپنے جوابات جمع کرادیے ہیں۔ جواب جمع کرانے والوں کی اکثریت نے منی لانڈرنگ کے الزمات کو مسترد کیا۔ صحافیوں کی تحقیقاتی تنظیم انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹیو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) نے 700 پاکستانی افراد میں سے 240 کے نام وزیر اعظم جائزہ کمیشن کو دیے تھے۔ جائزہ کمیشن کو موصول ہونے والے 240 ناموں میں سے 40 پبلک آفس ہولڈرز اور بیوروکریٹس شامل ہیں۔ جائزہ کمیشن کے مطابق، آئی سی آئی جے کی جانب سے مزید نام بھیجوائے گئے تو ان کی بھی تحقیقات ہوں گی۔ کمیشن کی فیکٹ فائنڈنگ انکوائری کا پہلا مرحلہ جنوری کے آخر تک مکمل ہونے کا امکان ہے۔کمیشن کو آئی سی آئی جے کی جانب سے نامکمل تفصیلات فراہم کی گئیںجس کی وجہ سے نادرا اور کمیشن کو لوگوں کے ناموں کی تصدیق میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
آئی سی آئی جے کی طرف سے گزشتہ برس 03 اکتوبر کو پنڈورا پیپرز نامی تحقیقات کو منظر عام پر لایا گیا تھا۔پنڈورا پیپرز میں بتایا گیا تھا کہ ہزاروں خفیہ کمپنیوں کے ذریعے سے دنیاکی بہت سی با اثر شخصیات نے کھربوں روپے سمندر پار ٹیکس چوری کی پناہ گاہوں میں منتقل کیے ۔ ان تحقیقات میں کئی موجودہ اور سابقہ حکمرانوں ، نمایاں کاروباری شخصیات ، معروف لوگوں ، مفرور افراد، ریٹائرڈ ججوں، ریٹائرڈ فوجی افسروں اور بینکاروں وغیرہ کے نام بھی شامل تھے۔ اس سے پہلے آئی سی آئی جے ہی کے پلیٹ فارم سے 03 اپریل 2016 ء کو پاناما پیپرز کے نام سے ایک بڑی تحقیق سامنے آئی تھی جس میں ہونے والے انکشافات نے اس وقت پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا کیونکہ اس میں بھی کئی اہم شخصیات کے نام شامل تھے۔ پاناما پیپرز کے سامنے آنے کے بعد ہی سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا تھا جس کے تحت مختلف جماعتوں نے ملک بھر میں جلسے جلوسوں کے ذریعے وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا۔ اسی حوالے سے عدالت عظمیٰ میں ایک مقدمہ بھی چلا جس کی یکم نومبر 2016ء سے لے کر 23 فروری 2017 ء تک پونے چار ماہ روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہوئی اور جب 20 اپریل 2017ء کو اس مقدمے کا تفصیلی فیصلہ سامنے آیا تو حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف دونوں نے اسے اپنی اپنی فتح قرار دیا۔
پاناما پیپرز کے ساڑھے چار سال بعد جب پنڈورا پیپرز نامی تحقیقات منصہ شہود پر آئیں تو عمران خان نے وزیراعظم جائزہ کمیشن کے تحت ایک اعلیٰ سطح کا سیل قائم کیا اور اسے ذمہ داری سونپی کہ وہ ان تحقیقات میں سامنے آنے والے تمام افراد سے جواب طلبی کر کے قوم کو حقائق سے آگاہ کرے۔ ایسے کسی بھی سیل کا قائم کیا جانا اور اس کے ذریعے مزید تحقیقات کر کے حقائق کو سامنے لانا یقینا ایک احسن اقدام ہے لیکن پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں ایسے سیل اور کمیشن وغیرہ تو بہت سے بنتے ہیں لیکن ان میں سے اکثر کی رپورٹیں اور تحقیقات منظر عام پر نہیں آتیں اور جن کی رپورٹیں اور تحقیقات سامنے آ جاتی ہیں ان پر مزید کوئی پیش رفت نہیں ہوتی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اور اس جیسے دیگر ترقی پذیر ممالک میں سیاسی مخالفین اور حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے سے انکار کرنے والے سرکاری افسروں اور کاروباری حضرات کو ایسے ہتھکنڈوں کے ذریعے تنگ اور پریشان کیا جاتا ہے۔
اگر عمران خان اس بات کو یقینی بنا سکیں کہ پنڈورا پیپرز سے متعلق قائم کیے گئے سیل کی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد انھیں نہ صرف منظر عام پر لایا جائے گا بلکہ ان کی بنیاد پر ہر ایسے شخص کے خلاف کارروائی کی جائے گی جس نے ناجائز طریقے اور ذرائع سے دولت اکٹھی کر کے ملک کو نقصان پہنچایا تو اس سے عوام کا نہ صرف ان پر اعتماد بحال ہوگا بلکہ ان کے قوم سے کیے گئے وہ وعدے بھی پورے ہوں گے جن کی بنیاد پر عوام نے انھیں 2018ء کے عام انتخابات میں حکومت کی تشکیل کے لیے مینڈیٹ دیا تھا۔ نئے سال کے پہلے دن عالمی اسلامی اسکالرز کے ساتھ ویڈیو لنک کے ذریعے آن لائن مکالمہ کرتے ہوئے بھی عمران خان نے یہی کہا کہ ریاست مدینہ میں قانون کی حکمرانی کو بہت اہمیت حاصل تھی، انصاف اور قانون کی حکمرانی سے ہی قومیں ترقی کرتی ہیں۔ یقینا وزیراعظم اس بات سے واقف ہوں گے کہ قانون اور انصاف کی حکمرانی کو یقینی بنانا حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے اور حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے سب سے زیادہ ذمہ داری انھی کی ہے، لہٰذا انھیں چاہیے کہ اس سلسلے میں بیانات اور تقریروں سے آگے بڑھ کر اب کچھ ایسے عملی اقدامات بھی کریں جن سے عوام کو یہ احساس ہو کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ ان کے نزدیک کتنی سنجیدگی اور اہمیت کا حامل ہے۔