سوشل اورڈیجیٹل میڈیا کے ہماری ثقافت پر اثرات

Jan 03, 2023

سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ورلڈ نے بڑی تیزی سے ترقی کی ہے۔ ترقی کا یہ سفر کہاں جا کر رُکے گا کب رُکے گا؟ اس بارے میں کچھ نہیں کہاجا سکتا۔ ترقی اور جدت کسی بھی شعبے میں ہو اسے اپری شیئیٹ ہی کیا جانا چاہیے مگر اس کے دونوں مثبت اور منفی پہلوﺅں کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ کبھی وہ دور تھا جب ایک خبر یا اطلاع ایک سے دوسری جگہ پہنچنے کا تعین فاصلوں سے ہوتا تھا۔ دن مہینے اوربرسوں تک بھی لگ جاتے تھے مگر آج دنیا میں ایک خبر، واقعہ یا اطلاع چند لمحات میں پہنچ جاتی ہے۔ اب تو خاص میڈیم ریڈیو اور ٹی وی کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ سوشل میڈیا، فیس بک، وٹس ایپ، ٹویٹر ،انسٹا گرام ایسے سوشل میڈیا نے بہت زیادہ ترقی کر لی اور پھر ایسی اپیلی کیشنز بھی آ گئیں کہ علم و انفارمیشن کا ایک سمندر بہہ نکلا ہے۔ بڑے بڑے سکالرز کو صحرانوردی اور دہشت گردی کرنا پڑتی تھی۔ کتابیں لکھنے کے لیے تحقیق دقت اور وقت طلب مرحلہ ہوا کرتا تھا۔د وسرے مملک سے کتاب منگوانے یا کوٹ منگوانے کے لیے ڈاک کے ذریعے کئی ماہ لگ جاتے مگر اب ساری انفارمیشن گوگل پر موجود جو انسان سے ایک کلک کی دوری پر ہے۔ قلم کا استعمال متروک ہو رہا ہے۔ موبائل ،کمپیوٹرپر اب کمپوزنگ کی بھی ضرورت نہیں۔ آپ بولتے جائیں خود بخود کمپوز ہوتا چلا جاتا ہے اردو سمیت ہر زبان میں اور پھر آج ترجمہ بھی آسان ہو چکا ہے۔ لوگ جدید سہولتوں کے ذریعے دانشور بن رہے ہیں۔بک پڑھنے کا رواج کم جبکہ بک رائٹنگ کا سلسلہ آسان اور تیز ہو رہا ہے۔ 1996ءمیں کیمرے والا موبائل آ چکا تھا۔ میں اپنے ساتھ سوئٹزرلینڈ سے ایک موبائل لے کر آیا تو پاکستان میں اسے دوستوں نے بڑی حیرت اور حسرت سے دیکھا۔ ہماری پارٹی سے تعلق رکھنے والے میرے ایک قریبی دوست نے جب یہ کیمرے والا موبائل میرے پاس دیکھا تو مجھے یہ موبائل انہیں دینا پڑ گیا ۔یہ دوست بعد میں پاکستان کے وزیراعظم بھی بنے۔ 
بات ہم ڈیجیٹل میڈیا کی مثبت اور منفی پہلوﺅں کی کر رہے تھے۔اب ذرا اس کے سائیڈ ایفیکٹس پر نظر ڈال لیتے ہیں۔ ساﺅتھ ایشیا میں اس میڈیا کا استعمال بھیانک انداز میں کیا جاتا ہے۔ یوٹیوب اور ٹک ٹاک جس طرح اس خطے میں بنتے اور چلتے ہیں مغرب میں اس کا تصور تک نہیں ہے۔ گاﺅں کی ایک لڑکی جس کے والد کی زمین صرف 5ایکڑ ہے وہ کھیتوں میں لہراتی، اٹھلاتی ہوئی ٹک ٹاک بنانے لگی تو آج کروڑوں میں کھیل رہی ہے ایک اور لڑکی نے نئے انداز میں گانا بھیگا بھیگا سماں گایا تو وہ بھی ہٹ ہو گیا۔ یہ دونوں اور کئی دوسری لڑکیاں اور لڑکے ایک پروگرام کرکے ارب کھرب پتی ہو گئے۔ ان کو دیکھ کر بہت سے لڑکے لڑکیاں اس فیلڈ کی طرف تیزی سے آ رہی ہیں۔ انجینئر، ڈاکٹر، سائنسدان، ٹیچر، پائلٹ بننے کا رجحان مفقود ہو رہا ہے۔ ادھر یوٹیوبر بھی کسی مصیبت کی طرح نازل ہو رہے ہیں۔ اکثر میں تمیز نہیں ہے یوٹیوب کا جہاں بہترین استعمال انفارمیشن شیئرنگ تلاوت، تبلیغ تعلیم کے حوالے سے ہو رہا ہے وہیں یوٹیوب غلط استعمال کر رہے ہیں۔ مائیک پکڑا کیمرہ اور کیمرہ مین ساتھ لیا سڑک پر کھڑے ہو گئے ، کسی سیرگاہ میں چلے گئے، انٹرویو کے نام پر ہراساں کرنے لگے ، کئی تو تھانوں حوالات میں ملزموں سے تحقیق اور تفتیش کرنے بھی پہنچ جاتے ہیں۔ مغرب میں ملزم کے بارے اس کے جرم سے متعلق خبر ہی شائع نہیں ہوتی کہ کل وہ بے گناہ ٹھہرے تو اس کے خلاف اور کردار کے بارے میں شائع ہونے والی خبر اس کی بدنامی کا باعث نہ بنے۔
یوٹیوبر پاکستان میں اس کا استعمال کرتے ہیں۔ قوم کو اس حوالے سے ایجوکیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے جو کرنا ہے کریں۔ یو کے کی طرز پر بھارت میں بھی منی سلیکون ویلی بن چکی ہے جس سے نوجوانوں میں آئی ٹی کے استعمال کا شعور پیدا ہو رہا ہے ہمیں بھی اس طرف بڑھنا ہوگا۔بھارت نے اس شعبہ میں اس قدر مثبت ترقی کی ہے کہ آج وہ سالانہ تین سے پانچ لاکھ انفارمیشن ٹیکنالوجی انجینئرز تیار کرکے دنیا بھر کے ترقی یافتہ اداروں میں بھیج رہے ہیں۔جس سے بھارت کی معیشت دنیا کی تیز ترین ترقی کی طرف رواں دواں ہے۔قارئین!پاکستانی کے سوشل میڈیا نے ترقی اور جدت تو پیدا کی مگر ایک انتہائی منفی سوچ اور ویژن کے بغیر۔اگر آپ سماجی رابطوں کی کسی بھی ویب سائٹس کا وزٹ کریں تو چند لمحوں بعد ہی آپ جھنجھلا اٹھیں گے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا جس طرح غلط استعمال پاکستان میں ہو رہا ہے مثلاًکوئی بھی کیمرہ اور موبائل پکڑ کر سڑکوں پر چل رہی یا بس سٹاپوں پر کھڑی خواتین کو ہراساں کرنا شروع کر دیتا ہے اور مختلف ٹیلی ویژن چینلز کے نام نہاد رپورٹر جو خود کو ٹی وی اینکرز کہلانے کا شوق رکھتے ہیں وہ کسی بھی صوبائی اور وفاقی محکموں کے دفاتر میں زبردستی گھس کر نہ صرف شہری حقوق کو پامال کرتے ہیں بلکہ حساس اداروں تک کے دفاتر میں گھس کا سرکاری مشینری کا مذاق اڑاتے ہیں اور اکثر نام نہاد اینکرز سرکاری عملے کو نہ صرف یرغمال بنا لیتے ہیں بلکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ پولیس یا سرکاری یونیفارم میں کسی بھی اہلکار کو روک کر اپنا مائیک اس کے منہ میں ٹھونس دیتے ہیں۔

مزیدخبریں