بھارت کے ساتھ معاملات سوچ سمجھ کر طے کیے جائیں


جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بگاڑنے اور عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے جتنی کوششیں بھارت اکیلا کرتا ہے اتنی دیگر ممالک نے مجموعی طور پر نہیں کی ہوں گی۔ اسی لیے بھارت کے کسی بھی ہمسایے کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں ہیں۔ پاکستان کے ساتھ تو کہا جاسکتا ہے کہ بھارت کے قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کی وجہ سے معاملات بگاڑ کا شکار ہوئے لیکن دیگر ہمسایوں کے ساتھ اس کے تعلقات کا جائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ کوئی بھی اس سے خوش نہیں ہے۔ وجہ اس کی یہی ہے کہ بھارت خطے میں اپنی چودھراہٹ قائم کرنا چاہتا ہے اور کوئی بھی ملک اس بات کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔ اسی لیے بنگلہ دیش، چین، بھوٹان، نیپال، سری لنکا اور مالدیپ سمیت کوئی بھی ایسا ملک نہیں جس کے ساتھ اس کے خوشگوار رتعلقات ہوں۔ یہ صورتحال صرف خطے کے اندر موجود ممالک کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام بین الاقوامی برادری کے لیے تشویش کا باعث ہونی چاہیے کیونکہ بھارت کی وجہ سے خطے میں جو مسائل پیدا ہوتے ہیں ان کے اثرات خطے سے باہر موجود دیگر ممالک پر بھی پڑتے ہیں۔
صرف پاکستان کے ساتھ ہی بھارت کے تعلقات کا جائزہ لے لیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بھارت پر کسی بھی صورت اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ مسئلہ کشمیر ہو یا پانی کی تقسیم کا معاملہ، ہر حوالے سے بھارت نے یہ ثابت کیا کہ وہ بین الاقوامی اور عالمی اداروں کی ثالثی میں کیے گئے وعدوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا اور اسے صرف اور صرف طاقت کی زبان سمجھ میں آتی ہے۔ اسی لیے دونوں ممالک کے درمیان کم از کم چار مواقع پر جنگیں لڑی جاچکی ہیں اور ویسے تعلقات میں کشیدگی کے مواقع اتنی بار آچکے ہیں کہ انھیں گننا بھی محال ہے۔ اقوامِ متحدہ سمیت بہت سے عالمی ادارے اور بین الاقوامی برادری کے بہت سے ارکان پاکستان اور بھارت کے مابین معاملات کو سدھارنے کی کئی بار کوشش کرچکے ہیں لیکن بھارت کا رویہ ہر بار مسائل کے حل کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے جس کی وجہ سے معاملات جوں کے توں رہتے ہیں۔
نئے سال کی آمد کے ساتھ ہی یکم جنوری کو، معاہدوں کے مطابق، پاکستان اور بھارت کے مابین قیدیوں اور جوہری تنصیبات کی فہرستوں کا تبادلہ ہوا ہے۔ قیدیوں کی فہرستوں کے مطابق، پاکستان میں 705 بھارتی قیدی زیر حراست ہیں جن میں سے 51سویلین اور 654ماہی گیر ہیں۔ دوسری جانب، بھارت کی قید میں 434پاکستانی ہیں جن میں 339سویلین قیدی اور 95ماہی گیر شامل ہیں۔ اس موقع پر پاکستان نے اپنے ایسے 51سویلین قیدیوں اور 94ماہی گیروں کی جلد رہائی اور وطن واپسی کی درخواست کی جنھوں نے اپنی سزا پوری کر لی ہوئی ہے اور ان کی قومی حیثیت کی تصدیق بھی ہو چکی ہے۔ مزید برآں، 1965ءاور 1971ءکی جنگوں میں لاپتا ہونے والے دفاعی اہلکاروں کو قونصلر رسائی دینے اور 56سول قیدیوں تک خصوصی قونصلر رسائی کی درخواست بھی کی گئی۔
اسی حوالے سے مزید بات کی جائے تو یہ ایک کھلا راز ہے کہ بھارت انسانی حقوق کی بھی کوئی پروا نہیں کرتا۔ اس سلسلے میں بھارتی صحافی رعنا ایوب نے امریکا میں پریس فریڈم ایوارڈ حاصل کرنے کی تقریب میں فاشسٹ مودی حکومت کے مظالم کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی جیسے درندے نے جی ٹونٹی کی سربراہی سنبھالی ہے جس کے ہاتھ دو ہزار مسلمانوں کے خون سے رنگے ہیں اور جسے ’گجرات کا قصاب‘ کہا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں جاری مظالم کے باوجود مودی کو عالمی فورم کا سربراہ بنانا اس فاشسٹ مودی کو سپورٹ فراہم کرنا ہے جو گجرات میں مسلمانوں کے بدترین قتل عام اور بھارت میں جاری مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کو پروان چڑھا رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی اخباروں اور جریدوں میں ایسے فاشسٹ کی تصویریں چھپنا بھی سوالیہ نشان ہے جس پر امریکی حکام کو نظرثانی کرنی چاہیے۔ 
بھارت کے مظالم کا ایک طویل سلسلہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی جاری ہے جہاں بھارتی غاصب سکیورٹی فورسز کے محاصرے کے آج 1246 روز مکمل ہوگئے ہیں۔ گزشتہ پون صدی سے اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی و بین الاقوامی ادارے اس معاملے پر جیسے چپ سادھے ہوئے ہیں وہ افسوس ناک ہے۔ اس سلسلے میں مسلسل قراردادیں تو منظور کی جاتی ہیں لیکن عملی طور پر ایسا کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا جاتا جس سے بھارت کو اندازہ ہو کہ اگر اس سے اپنے مظالم کا سلسلہ بند نہ کیا تو بین الاقوامی برادری اس کے خلاف متحد ہو جائے گی۔ اندریں حالات، پاکستان کو بھارت کے ساتھ معاملات بہت سوچ سمجھ کر طے کرنے چاہئیں اور کسی بھی صورت میں اس پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ماضی کے بہت سے واقعات اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ بھارت طے شدہ معاہدوں سے بھی پھر جاتا ہے۔شملہ معاہدہ اس کی بدترین مثال ہے جسے مقبوضہ وادی کو بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بناتے ہوئے اس نے پاﺅں تلے روندا ہے۔

ای پیپر دی نیشن